تاریخ کےاسباق میں سب سےاہم ترین سبق یہ ہے کہ لوگ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ ایلڈوس ہیکسلےکا یہ قول ایک بڑاسچ ہے، اور عام لوگوں سے زیادہ حکمران اشرافیہ پرصادق آتا ہے۔
تاریخ سے جب ہم سبق کی بات کرتے ہیں توہماری مرادتاریخ کے بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں۔ وہ واقعات جوعموماملکوں اورقوموں کے لیےسنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سنگ میل اس لیے کہ اس خاص واقعے کے رونما ہونے کے بعد کی دنیا اس سے پہلے کی دنیا سے مختلف ہوتی ہے۔ تاریخ میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہوئے۔ کئی عالمی سطح کے واقعات تھے، جن سے کسی ایک قوم یا ملک کےبجائے کئی قوموں اورملکوں کو واسطہ پڑا ۔ اس کی ایک بڑی مثال پہلی جنگ عظیم ہے۔
جیسا کہ نام سےظاہرہےاس سےقبل انسان نےاس روئے زمین پراتنی بڑی جنگ نہیں دیکھی تھی۔ چالیس ملین لوگ اس جنگ کا کسی نہ کسی طرح براہ راست شکار ہوئے۔ بیس ملین بدقسمت جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بیس ملین کے قریب زخمی ہوئے۔ مارے جانے والوں میں صرف فوجی ہی نہیں دس ملین کے قریب سویلین بھی تھے۔ انسان کاعالمی سطح پراس نوعیت کایہ پہلا تجربہ تھا۔ اوریہ بہت ہی خوفنا ک تجربہ تھا۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیاانسان نےاس اتنے بڑےاورخوفناک تجربےسےکوئی سبق سیکھاتھا۔ بےشک اس جنگ کے بعددنیا میں عالمی امن کی منظم تحریکیں شروع ہوئیں۔ کئی ملکوں اورقوموں نےجنگ وجدل ترک کر کہ امن کاراستہ اختیارکیا۔ دنیا میں امن کے لیے اورجنگ کے خلاف بڑے پیمانے پرادب تخلیق ہوا۔ مگراس سب کے باوجود دنیا ایک بارپھردوسری جنگ عظیم کے تلخ تجربےسے گزری، جوپہلی جنگ عظیم سے بھی زیادہ خوفناک تجربہ تھا۔
عالمی سطح پرمشترکہ تجربات کےعلاوہ مختلف اقوام کے اپنےاپنےانفرادی تجربات ہیں۔ کچھ اقوام نےان تجربات سےسبق سیکھا اورکامیاب رہے۔ کچھ نےنظراندازکیا اورتباہی ان کا مقدرٹھہری۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، شاید رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔
آج ہماراواسطہ کورونا سے ہے۔ کورونا سے ہمیں ایک نیا تجربہ ہورہا ہے۔ اس وائرس کوطبی اعتبارسےہم سپینش وائرس، سار، ایچ آئی وی یاایبولہ وغیرہ جیسے تجربات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اسی تجربے کی روشنی میں کسی دوایاویکسین کی امیدباندھےبیٹھےہیں۔ اگرہم تاریخ سے سبق سیکھ سکتےتوشاید سپینش وائرس کے بعد ہم پھرکبھی کسی وائرس کے ہاتھوں اتنی خوفناک تباہی کا شکارنہ ہوتے۔ یہ وائرس بھی دوسری جنگ عظیم کے دوران پھیلا۔ جنگ اور فوجیوں کی نقل و حرکت کی وجہ سے یہ وائرس دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا۔
دنیا میں تقریبا پانچ سوملین لوگ اس وائرس سے متاثر ہوئے، جواس وقت کی کل آبادی کا ایک تہائی حصہ تھا۔ اگردنیا اس کو سنجیدہ لیتی، اس تجربے سے کوئی سبق سیکھتی تووائرسزکےسدباب اورعلاج کے لیے مناسب وسائل مختص کیے جاتے۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں کو انسانی تباہی کے ہتھیار بنانےکا کام سونپنے کےبجائے انسانی زندگی بچانےپرلگایا جاتا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ انسانی تباہی کےسامان پروسائل جھونکے جاتے رہے۔ کمیشن بانٹے جاتے رہے۔ دنیااپنےحال میں مست رہی۔ یکے بعد دیگرے کئی وائرسز کے ہاتھوں تباہی کے بعدآج دنیا کو کورونا کا سامنا ہے۔ کورونا کے ہمارےسماج پرجو معاشی ، سیاسی وسماجی اثرات مرتب ہوں گے ابھی اس کی کوئی واضح تصویربنانا مشکل ہے۔
مگرمغرب میں معاشی ماہرین اوردانشوراس کا” گریٹ ڈیپرشن” کےساتھ موازنہ کررہے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ کورونا کے اختتام پرمعاشی تباہی وبربادی کا وہی نقشہ ہوگا، جوڈیپرشن کےدورمیں سامنےآیا تھا۔ یہ تجزیہ دنیا میں بعض ایسےحکمرانوں کے لیے بری خبر ہے، جو کورونا کے دوران وہی اقدامات اٹھا رہے ہیں، جو صدرہربرٹ ہوورنےاس ڈیپریشن کے دوران اٹھائے تھے۔ ان اقدمات سےڈیپرشن پر قابو نہیں پایا جا سکا ، اورصدرہوورکا سیاسی مستقبل مکمل طورتباہ ہو گیا تھا۔ یہ ایک دلچسپ مگرالمناک قصہ ہے۔
گریٹ ڈیپریشن امریکی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے۔ کسی بھی معاشی یا سیاسی بحران میں اس ڈیپرشن کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ ڈیپرشن شروع توسٹاک مارکیٹ کرش ہونے سے ہوا تھا، لیکن اس کا جھٹکا اتنا شدید تھا کہ اس نے زندگی کے ہرشعبے کوہلا کررکھ دیا۔ اس ڈیپرشن کا آغاز1929 کے موسم خزاں میں ہوا۔ اس ڈیپرشن کی وجہ امریکی سٹاک ایکسچنیج کا کرش ہونا تھا۔ سٹاک کاعوام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس وقت امریکہ میں صرف دوفیصد لوگوں کے پاس سٹاک تھے۔ چنانچہ جب سٹاک کرش ہوا توصرف دوفیصد لوگوں کا پیسہ ڈوبا۔
اس کرش میں عوام کا پیسہ نہیں ڈوبا تھا، چونکہ ان کے پاس پیسہ تھا ہی نہیں، اگر کچھ تھا بھی تو سٹاک میں نہیں تھا۔ البتہ اس کرش میں عوام کے خواب ڈھوب گئے۔ بہت سارے لوگوں کا خواب یہ تھا کہ ان دوفیصد کی طرح ایک دن وہ بھی وال سٹریٹ میں قسمت آزمائی کریں گے۔ بدقسمتی سے لیکن بات صرف سٹاک تک نہیں رکی۔ اس کے بعد بینکوں کی باری تھی۔ ایک ہی سال میں پانچ سوبینک دیوالیہ ہوگئے۔ بینک بند ہونے کی وجہ سےعوام کا بچت کا پیسہ ڈوب گیا۔ پیسہ ڈوبنے اورخواب ٹوٹنے سے لوگوں کے سیاسی خیالات میں بھی بہت بڑی تبدیلی آئی۔
جن امریکیوں نے صدرہربرٹ ہوورکوایک ریکارڈ اکثریت سے منتخب کیا تھا، اگلے انتخابات میں اتنی ہی ریکارڈ اکثریت سے اسےاقتدار سے نکال باہرکیا۔ ہوورنےاپنی انتخابی مہم کے دوران بارباریہ دعوی کیا تھا کہ امریکہ غربت کے خلاف فتح حاصل کرنے کےقریب ہے، لیکن ان کے صدربننے کے صرف ایک سال بعد ڈیپریشن کی وجہ سے لاکھوں امریکی روٹی کےایک ایک ٹکڑے کے لیےطویل قطاروں میں کھڑے ہونے پرمجبور تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ صدربننے سے پہلے ہوورامریکہ کا مقبول ترین شخص تھا۔ اس مقبولیت کی وجہ اس کا انسانی ہمدردی کے نام پرکام تھا۔
وہ1900 کی بوکسربغاوت کے وقت چین میں تھا۔ اس وقت ہزاروں امریکی اوردوسرےغیرملکی چین میں پھنس گئے۔ ہوورنے ان کے باحفاظت انخلا کابندوبست کیا۔ پہلی جنگ عظیم میں یورپ میں پھنس جانے والےلاکھوں امریکیوں کونکالنے کا کام کیا، اس کے بعد جرمن فوج کے محاصرے میں پھنسے ہو ئےنوملین بلجییم کےباشندوں کو خوراک مہیا کرنے والے ریلیف کمیشن کی سربراہی کی۔ وہ امریکی تاریخ کا شاید واحد آدمی تھا، جسےامریکہ کی دونوں بڑی پارٹیاں ڈیموکریٹ اورکنزرویٹواپنا صدارتی امیدواربنانے کےلیےاس کے آگے پیچھے گھوم رہی تھیں۔ اس وقت فرینکلن روزویلٹ نے اسےنابغہ روزگار شخص قرار دیتے ہوئےلکھا کہ تھا اےکاش ہم اسےاپنا صدارتی امیدواربناسکیں۔ اس سے بہترشخص کوئی نہیں ہے۔ لیکن ڈیپرشن میں ناکام پالیسیوں کی وجہ سے اسی روزویلٹ نے ہوورکوبہت بڑی اکثریت سے شکست دی۔
گریٹ ڈیپرشن سے لڑنے کے لیے جو اس نے پالیسی بنائی اس کے دواہم نکات تھے۔ ٹیکسوں میں کٹوتی، اورپبلک پروجیکٹس کی تعمیر۔ ٹیکس کم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ لوگوں کی جیبوں میں زیادہ پیسےرہنے دیےجائیں، اور تعمیراتی کام کا مطلب زیادہ سے زیادہ روزگارکےمواقع پیدا کرنا تھا۔ بد قسمتی سے اس کی پالیسی ناکام رہی۔ وہ بے بسی سےدیکھتا رہا جب لاکھوں کاروباربند ہوئے، اورکروڑوں امریکی بری طرح غربت اور بے روزگاری کا شکا رہو گئے۔ اس نے آج کے کچھ لیڈروں کی طرح یہ سنگین غلطی بھی کی کہ امپورٹ ٹیکس میں اضافہ کردیا، جس کی وجہ سے دوسری اقوام نے امریکی مصنوعات خریدنا بند کردیں۔
اگلے انتخابات میں ہوور نے پوری صورتحال کی ذمہ داری ڈیپرشن پرڈال کربری الذمہ ہونےکی کوشش کی۔ لیکن عوام اس کی یہ دلیل ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ اسےایک تاریخی فتح کےبعد تاریخی شکست سے دوچارہوکروائٹ ہاؤس سے رخصت ہونا پڑا۔ صدر ہوور کی کہانی میں ہمارے آج کے کچھ مقبول لیڈروں کے لیے بڑاسبق ہے۔
کورونا کے بعد جب نظام زندگی بحال ہوگا۔ حالات معمول کی طرف لوٹنے لگیں گے، تو ہمارے آج کے کئی رہنماؤں کو ہربرٹ ہوورکی طرح مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اورشاید وہ ہمارےاردگرد پھیلی ہوئی غربت اورتباہی کو کورونا کے کھاتے میں ڈال کرخود کو بری الزمہ قرارنہ دے سکیں۔ یہ درست ہے کہ وباوں، بلاوں اورآفات کے آگے انسان آج بھی کسی حدتک بےبس ہے، لیکن مکمل طورپربے بس نہیں۔
اگر کورونا کے ہاتھوں تباہی وبربادی کا سکیل ہرملک میں مختلف ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہرملک کے لیڈروں نےکورونا کےخلاف الگ الگ اقدامات کیے۔ جہاں بروقت اورموثراقدامات ہوئے وہاں کم تباہی پھیلی۔ جہاں بے دلی اور تاخیرسےکام لیا گیا، وہاں صورت اس کے برعکس ہے۔ یہ کوئی پیچیدہ فلسفہ نہیں ہے، جوعوام کی سمجھ میں نہ آسکے؛ چنانچہ آنے والے چند برسوں میں ہم آج کی سیاست میں موجود ومتحرک کئی چہروں کوغائب ہوتےدیکھیں گے۔ اورکئی نئے چہرےسیاسی افق پرابھریں گے۔
♣