حکومت کی معاشی ٹیم کے مطابق کورونا کے عالمی بحران نے ملک میں اقتصادی بہتری کے تمام اقدامات کو واپس پیچھے کی جانب دھکیل دیا ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ بہتری کب آئے گی۔
وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران معیشت کو تین کھرب روپے کا نقصان ہوا۔ معاشی ترقی کی شرح تین فیصد تک متوقع تھی لیکن اب حکومت کے اپنے اندازوں کے مطابق یہ شرح منفی صفر اعشاریہ چار ہوگی۔
پاکستان کو قرضے دینے والے عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق صورتحال اس بھی زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق مجموعی داخلی پیداوار کی شرح منفی ایک اعشاریہ پانچ تک گر سکتی ہے، جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق یہ منفی دو اعشاریہ چھ فیصد تک جا سکتی ہے۔
پاکسان پہلے بھی کڑے معاشی چیلنجز سے گذرا ہے لیکن سات دہائیوں میں یہ پہلی بار ہے کہ ملک کی مجموعی داخلی پیداوارمنفی ہورہی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اپنی دو سالہ معاشی ناکامیاں کورونا پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں کورونا سے پہلے ہی لوگ بیروزگار ہو رہے تھے، کاروبار ٹھپ ہو رہے تھے، عام شہریوں پر نئے ٹیکس لگائے جا رہے تھے جبکہ عمران خان امیر طبقات کو خصوصی ٹیکس مراعات دے رہے تھے۔
لیکن معاشی تجزیہ نگار خرم حسین کے مطابق اس بات میں کافی حد تک صداقت ہے کہ حکومتی ٹیم نے پچھلے سال آئی ایم ایف پروگرام کے تحت معاشی استحکام کے لیے جو اقدامات لیے، کورونا سے پہلے اس کے کچھ بہتر نتائج سامنے آنا شروع ہوئے تھے۔ ذرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری ہو گئی تھی اور مالیاتی خسارہ کم ہونا شروع ہوگیا تھا۔
انگریزی روزنامے ڈان میں اپنے مضمون میں انہوں نے لکھا کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے پہلے نو ماہ میں مالیاتی خسارے میں ایک اشاریہ دو فیصد کی کمی آئی تھی، جو ایک بڑی کامیابی تھی۔ یہ رقم پانچ سو اٹھائیس ارب روپے کے قریب تھی، جو کہ ملک کے دفاعی بجٹ کا تقریبا نصف بنتی ہے۔
خرم حسین کے مطابق حکومت پرامید تھی کہ اسے ان اقدامات کا ثمر اس مالی سال سے ملنا شروع ہوگا لیکن کورونا نے تمام کاوشوں پر پانی پھیر دیا۔ نتیجہ یہ کہ اب پاکستان کا مالیاتی خسارہ نو اعشاریہ تین کی ریکارڈ سطح سے بھی آگے جا سکتا ہے۔
کورونا کے بحران کے دوران پاکستان کا زرعی شعبہ نسبتا محفوظ رہا۔ لیکن ماہرین کے مطابق ٹڈی دل کے حملے دیہاتوں میں مالی تنگی اور خوراک کی پیداور کو متاثر کر سکتے ہیں
اسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے کے مطابق ان حالات میں مزید ایک کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے آسکتے ہیں، جس کے بعد ملک میں یہ تعداد پانچ سے چھ کروڑ ہو جائے گی۔
ماہرین اور کاروباری حلقوں کے مطابق کورونا کے نقصانات سے نکلنے میں ملک کو ایک سے ڈیڑھ سال لگ سکتا ہے۔ ٹیکسوں میں کمی ممکن نہیں ہوگی اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لیے حکومت کے ہاتھ بندھے رہیں گے۔ ایسے میں معاشی ترقی کی خواہش فی الحال ایک خواب ہی رہے گی۔
DW.com