بیرسٹر حمید باشانی
امریکہ میں نسل پرستی کے حالیہ واقعے اوراس کے خلاف ہونے والے رد عمل میں بہت اسباق ہیں۔ جارج کا مقدمہ بنیادی طورپرنسل پرستی کا مقدمہ ہے۔ مگریہ مقدمہ ہماری اس دنیا میں شہری آزادیوں اورقانون کی حکمرانی کی حالت زارپربھی سوال اٹھاتا ہے۔ واقعے کا پس منظر بے شک نسل پرستی ہے، اور وجہ بھی نسل پرستی ہی ہے، لیکن پولیس والوں کا عمل محض نسل پرستی تک محدود نہیں۔ یہ عمل قانون کی حکمرانی اورشہری آزادیوں کی خلاف ورزی ہے۔ مغرب میں نسل پرستی موجود ہے، اور اس گھناونی حقیقت سے کسی کو انکار نہیں۔
مگرمغرب میں نسل پرستی کے خلاف کتنی نفرت ہے ؟ شہری آزادیوں کا شعوراوراحترام کتنا ہے ؟ اس بات کا اندازہ وہ رد عمل دیکھ کر ہوتا ہے، جوجارج کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پرہوا۔ تینوں پولیس آفیسرزپرقتل کا مقدمہ قائم ہونے کے باوجود لوگ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پرنکل آئے، ان میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ خواہ وہ کینیڈا کے وزیراعظم ہوں یا واشنگٹن کے مئیر۔ یہ رد عمل دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ گاہے لیڈرشپ کے انتخاب میں سنگین غلطیوں کے باوجود، جس کے نتیجے میں ٹرمپ جیسے لوگ بھی منتخب ہو سکتے ہیں، اب بھی مغربی سماج میں ایسے رہنماوں کی کمی نہیں، جو نسلی، لسانی اور مزہبی تعصبات سے اوپر اٹھ کر قانون کی حکمرانی اور شہری آزادیوں کی خاطر لڑنے کو تیا ر ہیں۔
شہری آزادیاں کیا ہوتی ہیں ؟ ان آزادیوں کی عملی اشکال کیا کیا ہیں؟ کیا ہرآزاد سمجھے یا آزاد کہلائے جانے والے ملک کے لوگوں کو شہری آزادیاں حاصل ہوتی ہیں۔ شہری آزادی کی اصطلاح کی کئی تعریفیں ہیں۔ اہل فلسفہ اوردانشوروں کےمختلف مکاتب فکر اپنےاپنےنظریات اورخیالات کے مطابق اس اصطلاح کی تعریف کرتے ہیں۔سادہ زبان میں بغیرکسی پابندی کے کچھ چیزوں کی آزادی کو شہری آزادیاں کہا جا سکتا ہے۔ اس تعریف پروسیع اتقاق رائے ہے۔
پابندی سے مراد یہاں حکومت کی طرف سے پابندی ہے۔ لیکن یہ پابندی صرف حکومت تک ہی محدود نہیں ہے۔ آج کےجدیداور پیچیدہ سماجی ڈھانچوں میں یہ پابندی حکومت کےعلاوہ سماج کےدیگربااختیارطبقات کی طرف سے بھی عائد ہوسکتی ہے۔ مثال کے طورپر کسی سماج میں حکومت شہریوں کو اظہار رائے کی کھلی آزادی دے سکتی ہے، لیکن اس سماج میں اظہار کے ذرائع جن صاحب اختیارافراد یا اداروں کے پاس ہوتے ہیں وہ اظہاررائے کے راستے کی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اس مثال سے شہری آزادیوں اورشہری حقوق کا فرق بھی واضح ہوتا ہے۔
عام طور پربنیادی حقوق، انسانی حقوق، بنیادی آزادیوں اورشہری آزادیوں کوایک ہی چیزسمجھا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ جدید سماج میں کسی نہ کسی موڑ پر یہ سارے تصورات آپس میں جاکرجڑتے یا گڈ مد ہوتے ہیں، لیکن اگرغور سے دیکھا جائے تو ان سب تصورات میں بڑا فرق ہے۔ شہری آزدیوں کوچاراقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی شہری آزادیاں، قانونی شہری آزادیاں، سماجی شہری آزدیاں، اورمعاشی شہری آزادیاں۔ ان سطور میں ہم قانونی شہری آزادیوں کا تفصیل سے جائزہ لیں گے، اوردیگراقسام کا آئیندہ کالموں میں احاطہ کیا جائے گا۔
قانونی شہری آزادیاں کیا ہیں ؟ قانونی شہری آزادیوں سے مراد وہ آزادیاں ہیں، جو کسی بھی تہذیب یافتہ سماج کےنظام انصاف میں قانونی اورآئینی طورپرایک شہری کو دی جاتی ہیں۔ ان قانونی شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیےقانون ہرشہری کو ضمانت دیتا ہے کہ اسے “آربیٹریری” یعنی من مانی طورپرگرفتاریا قید نہیں کیا جاسکتا۔ گرفتاری یا قید کسی بھی شخص کی آزادی سے محرومی کا ایک عام طریقہ ہے۔ لیکن یہ گرفتاری یا قید بسا اوقات قانونی طور پرلازم ہوتی ہے۔
جب گرفتاری قانونی طور پرلازم یا ناگزیرہوتی ہے تو بھی اس کے کچھ قانونی تقاضے ہوتے ہیں، جو ہرمہذب ملک کے آئین وقانون میں واضح طور پرلکھے ہوتے ہیں۔ یہ قانونی تقاضے پورے کیےبغیرجب کسی شہری کو گرفتاریا قید کردیاجاتا ہے تواس عمل کوغیرقانونی تصورکیا جاتا ہے۔ یہ عمل اس شہری کی شہری آزدیوں پرحملہ ہوتاہے، جو انصاف کے بنیادی تقاضوں سےمتصادم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے جائزاورقانونی گرفتاریوں کے دوران بھی متعلقہ قانون اورقاعدوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ چلن بھی عام ہے کہ قانونی تقاضے پورے کیے یعنی من مانی طورپر جب کسی شہری کوکسی ایسے کیس میں گرفتارکرلیا جاتا ہے، جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اس بات کی کوئی ٹھوس ثبوت یا شہادت موجود نہیں ہوتی کہ اس شخص نے واقعی وہ جرم کیا ہے۔ کسی ٹھوس ثبوت یا شہادت کے بغیرمحض شک کی بنیاد پرکسی شخص کو گرفتار کرنے کے بعد اس کے خلاف ثبوت اورگواہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ملزم کو پہلے مجرم سمجھا جاتا ہے، اور پھر اس کا جرم ثابت کرنے کے لیے ثبوت اگھٹے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
غیرقانونی اورمن مانی گرفتاری کی ایک بدترین شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ گرفتار ہونے والےشخص کو گرفتار کرنے سے پہلے گرفتاری کی وجہ ہی نہیں بتائی جاتی۔ اسے وارنٹ گرفتاری نہیں دیکھائے جاتے۔ بسا اوقات اس طرح گرفتار کیے گئےاشخاص کو “ان کمیونیکیڈو” رکھا جاتا ہے، یعنی ان کو قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے، اور اپنےعزیزواقارب، وکیل یا کسی بھی دوسرے شخص سے رابطے کی اجازت نہیں دی جاتی، یا پھران کو کسی خفیہ ٹھکانے پررکھا جاتا ہے۔ اس طرح کی من مانی اورغیرقانونی گرفتاری سے نا صرف متعلقہ شخص کی شہری آزادیاں متاثر ہوتی ہیں، بلکہ یہ لوگ اکثراوقات ذہنی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنائےجاتے ہیں۔ اور گرفتار کرنے والے کے ہاتھوں کئی قسم کی نا انصافیوں اورزیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔
قانونی شہری آزادیوں کی ایک بڑی خلاف ورزی غیرمعقول بنیادوں پر کسی شہری کی تلاشی لینے کا عمل ہے۔ قانون نافذ کرنے والےادارے جب بغیرکسی معقول وجہ کے محض شک کی بنیاد پر کسی شہری کی تلاشی لیتے تویہ عمل شہری آزادیاں پرشدید حملہ ہوتا ہے۔ تلاشی کی معقول وجہ نہ ہونا، یا وارنٹ کی عدم موجودگی اوراس باب میں موجود دیگرکلیوں قاعدوں کی خلاف ورزی بھی شہری آزادیوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
قانونی شہری آزادیوں کے باب میں کسی جرم کا الزام عائد ہونے اورگرفتاری کے بعداپنے گرفتار ہونے والے شخص کے حقوق کی ایک طویل فہرست ہے، جسے ایک عام انگریزی لفظ یعنی “ڈیوپروسس” میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ یعنی گرفتارشدہ شخص کو قانون و قاعدے کے مطابق اپنی صفائی کا پوراپوراموقع فراہم کیا جانا چاہیے۔ صفائی کے موقع کا ایک وسیع تناظر ہے۔ اس میں وکیل صفائی تک رسائی سے لیکروہ تمام اقدامات شامل ہیں، جو قدرتی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیےضروری ہیں۔ ہرشہری کا یہ قانونی حق ہے کہ اس پرلگایا گیا الزام ثابت ہونے تک اسے معصوم تصور کیا جائے، یعنی ایک معصوم شخص سے مجرم جیسا سلوک نہیں کیا جانا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں عملا اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ایک شہری سےگرفتارہوتے ہی، بلکہ گرفتاری سے پہلے ہی مجرموں جیسا سلوک شروع کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پولیس تشدد اورغیرانسانی سلوک ایک گھناونی حقیقت ہے، جس کواب “نارمل” اور زندگی کا حصہ سمجھا جانے لگا ہے۔ حالاں کہ ملک کے آئین وقانون میں تشدد یاغیر انسانی سلوک کے خلاف واضح دفعات موجود ہیں۔
من مانی گرفتاری انسانی تاریخ کا ایک بہت ہی گھمبیر مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلے کے خلاف شہری آزدیوں کے حامیوں نے طویل اورصبرآزما جہدو جہد کی۔ اس جہدوجہد کے دوران خود ان لوگوں کو قید وبند صعوبتیں برداشت کرنا پڑِیں۔ کئی ایک کی جان چلی گئی۔ آہستہ آہستہ دنیا میں انسانی حقوق اورجمہوریت کے فروغ کے بعد اس باب میں کچھ قابل ذکرتبدیلیاں آئیں۔ بیسویں صدی کے تیسرے اورچوتھےعشرے تک اس باب میں انسانی شعورمیں اس حد تک اضافہ ہو چکا تھا کہ کئی ممالک نے اپنے اپنے آئِین و قانون میں من مانی گرفتاری کے خلاف واضح دفعات شامل کیں ۔ سن1948 میں عالمی برادری نے شہری آزادیوں کے تحفظ کو انسانی حقوق کےعالمی اعلامیے میں شامل کیا۔
دنیا میں اب شہری آزدیوں کا شعور کس قدرپختہ ہو چکا ہے، اس کی ایک جھلک جارج فلائڈ کے کیس میں نظرآتی ہے۔ اس کیس میں نسل پرستی کے علاوہ قانون کی حکمرانی اورشہری آزادیوں کا پہلو بھی نمایاں ہواہے۔ لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پوری طرح قانون کی حکمرانی کے تابع لانے کا کام ابھی باقی ہے۔ پولیس کی طرف سے تشدد، غیرقانونی گرفتاری اورطاقت کےناجائزاورغیرضروری استعمال کو روکنے کے لیے بہت کام کی ضرورت ہے۔
♦