سنگین ولی
پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی اس سے پہلے کوئی ایسی جابر اور نااہل حکومت آئی ہو۔ حکومتیں تو بہت گزری ہیں، مارشل لاء بھی آئے ہیں اور نیم جمہوری حکومتیں بھی آئی ہیں مگر اس جیسی ظالم، جابر اور نااہل ترین حکومت کوئی نہیں آئی ہے۔ اور حکومت کی خوش قسمتی دیکھئے جتنی یہ حکومت جابر ہے، نااہل ہے اتنی ہی بے حس اپوزیشن ملی ہے۔ اگرچہ اس سول حکومت کے پاس اختیارات تو بہت کم ہیں مگر اس کے فیصلے بہت ظالمانہ اور استبداد پر مبنی اور استحصالی ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کو اس لئے جابر ترین حکومت کہا جا سکتا ہے کہ اس کے فیصلے عوام دشمن اور غریب کش ہیں۔ مہنگائی کی شرح پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین سطح پر ہے۔ شرح سود پہلے13 فیصد تک پہنچ گئی تھی اب10 فیصد تک آگئی ہے۔ بے روزگاری شائد پہلے کبھی اتنی بڑھی ہوئی ہو جتنی اب بڑھ گئی ہے۔ ایک کروڑ لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں (یا کئے جا رہے ہیں، سٹیل مل کے ہزاروں ملازمین اس کی تازہ ترین مثال قرار دی جا سکتی ہے، وہی سٹیل مل جسے کبھی خان صاحب ایسا چلانے کے دعوے کر رہے تھے کہ جس کا تماشہ دنیا نے دیکھنا تھا)۔
پاکستان کی آبادی کا60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے اور وہ پہلے سے دربدر پھر رہے تھے۔ ڈگریاں اور سندیں تو اکثریت کے پاس ہیں مگر روزگار اور نوکریوں کا کوئی پتہ نہیں ہے اور نہ اس کے دور دور تک کوئی آثار نظر آ رہے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے والے کپتان نے الٹا برسرِ روزگار لوگوں کو بھی بے روزگار کر دیا ہے۔60 فیصد تک لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گر چکے ہیں۔ دو روپے بجلی یونٹ کی فراہمی کا وعدہ کرنے والے کپتان نے بجلی کی قیمت کہاں تک پہنچائی۔ گیس مہنگی، دوائیں مہنگی، اشیائے ضرورت کی قیمتیں سب آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ چینی اور آٹا پہلے تو مارکیٹ سے ہی غائب کر دیئے گئے اوپر سے مصنوعی قلت پیدا کرکے عوام کی جیبوں پر ہی500 ارب کا ڈاکہ ڈالا گیا۔
جبر اور استبداد کی دوسری شکل سیاسی اور جمہوری آوازوں پر پابندی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس نام نہاد جمہوری حکومت کے دور میں میڈیا اور سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے۔ میڈیا مختلف مشکلات کا شکار ہے۔ حکومت نے بقایاجات روک رکھے ہیں اور نئے اشتہارات نہیں دے رہی ہے۔ میڈیا ہاؤسز کے مالکان پر مختلف قسم کے دباؤ ڈالے جا رہے ہیں تاکہ ان کو اپنے دائرے میں رکھا جائے اور وہ حکومتی پالیسیوں کو ہدف تنقید نہ بنا سکیں۔
سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے۔ کوئی سیاسی اور مزاحمتی تحریک دیکھنے کو نہیں ملتی۔ حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو جس طرح زدوکوب کیا ہے پہلے شائد کبھی ایسا نہیں ہوا ہو۔ اپوزیشن رہنماؤں کے اوپر جس طرح غیر قانونی اور بے بنیاد مقدمات چلائے جا رہے ہیں وہ نہ صرف قابلِ مذمت ہیں بلکہ قابلِ مزاحمت بھی ہیں۔ (لیکن مزاحمت کرے کون، ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ ملک کی ساری سیاسی جماعتوں نے غیرمحسوس طریقے سے موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے اور سب اپنے ذاتی یا جماعتی مفادات کے تحفظ میں لگی ہوئی ہیں)۔
اپنی نااہلی کو چھپانے اور عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے یہ حکومت نام نہاد احتساب کا ڈھونگ رچاتی ہے تاکہ عوام کی اصل توجہ کہیں اور طرف ہو جائے۔ احتساب اگرچہ جمہوریت کا حسن ہے مگر وہ شفاف اور بلا تفریق ہونا چاہیے۔ اس میں اپنے اور پرائے اور کمزور اور طاقتور کی تمیز نہیں ہونی چاہیے۔ مگر یہاں پر ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی انجینئرنگ کیلئے ہو رہا ہے۔
کرونا وباء نے حکومت کی نااہلی کو مزید آشکار کر دیا ہے حتی کہ بروقت فیصلہ سازی نہ ہونے کی صورت میں وباء تیزی سے پورے ملک میں پھیلنے لگی ہے۔ (سننے میں آ رہا ہے کہ اس وقت پاکستان کورونا کیسز اور اموات کے لحاظ سے دنیا بھر میں ٹاپ پر ہے) اب تک تقریباً دو ہزار کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ اور ستر ہزار سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔ اور جولائی تک متاثرین کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ سب حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس تمام نااہلی اور جبر کے باوجود اپوزیشن خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔
لگتا ہے حکومت کی طرح اپوزیشن بھی عوام پر کوئی رحم نہیں کھاتی۔ عوام اس جابر اور نااہل حکومت سے تنگ آگئی ہے۔ لوگ بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے خودکشی پر مجبور ہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اور آنے والے بجٹ میں مزید ٹیکس لگائے جانے کا امکان ہے جو کہ عوام کا گلا گھوٹنے کے مترادف ہوگا اور عوام میں برداشت کرنے کی مزید سکت نہیں ہے۔
لہذا اپوزیشن جماعتوں کو اب آگے آنا چاہیے۔ بزدلی اور سمجھوتے کی سیاست سے نقصان خود اپوزیشن، ملک اور غریب عوام کا ہے۔ جب تک اپوزیشن مزاحمت کی سیاست شروع نہیں کرتی تب تک مار کھاتی رہے گی۔اور عوام بے چاری غربت اور نااہلی کی چکی میں پستی رہے گی۔
♦