خالد محمود
پہلے تو برِصغیر کا ہر بھگوڑا،سرجن تارا اور لعل بجھکڑ امریکہ میں کرونا وائرس کی وجہ سے بہت زیادہ اموات پر جا بجا امریکہ پر تنقید کئے جا رہا تھا۔حالانکہ یہ خوش ہونے کی بجائے اجتماعی سوگ منانے کا وقت تھا۔امریکی عوام سے اظہار یک جہتی اور سالیڈیرٹی نبھانے کا وقت تھا۔اور آج کل ان لفافہ برداروں نے امریکہ میں نسلی فسادات پھوٹ پڑنے پر تبصروں کی بھرمار کر رکھی ہے۔ایسا کرنے سے یقیناً ان لوگوں کے اپنے اندرونی معاشی،انتظامی اور نظریاتی تضادات سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔
سب کو معلوم تھا کہ ایک ہی عشرے میں اچانک پوری دنیا میں پاپولسٹ ، دائیں بازو کے انتہا پسند سیاستدانوں کا الیکشن جیت کر مسند اقتدار پر بٹھا دینا کن مرئی اور غیر مرئی قوتوں اور سرمایہ داری کے اندرونی تضادات کا مرہونِ منّت تھا۔اور جنہیں کوئی اندازہ نہیں تھا وہ اب کرونا کی تباہ کاریوں سے جلد ہی کامل ادراک پا جائیں گے۔ہندوستان میں ہندوتوا کے پرچارک مودی،پاکستان میں ریاست مدینہ کا خواب دکھا کر اقتدار پر قابض ہونے والے عمران،برازیل میں دائیں بازو کے کٹر کیتھولک جئیر بال سونارو اور امریکہ میں بائبل بیلٹ اور مِڈ ویسٹ کے سادہ لوح دیہاتیوں کو عظمت گم گشتہ لوٹانے کا وعدہ کرنے والے ٹرمپ کے پیچھے کم وبیش ایک جیسے معروضی حقائق ہیں۔عالمی تناظر میں کئی امریکی اقدامات اور دوسروں پر زبردستی تھوپی گئی جنگوں کا دفاع کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے۔اس حوالے سے امریکی انتظامیہ پر پوری دنیا میں سرعام تنقید ہوتی ہے ۔لیکن امریکی عوام کو دیے گئے آئینی حقوق پر تیسری دنیا کے لٹیرے اور برطانوی سامراج کے چھوڑے ہوئے وہ گماشتے کبھی بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے جو اپنے صوبوں میں پسی ہوئی عوام کو حق خود ارادیت دینے کی بجائے فوجی طاقت سے کچل رہے ہیں۔
یہ لفافہ بردار مراعات یافتہ ٹیلی ایوینجلسٹ مبصّرامریکہ پر چاند ماری کرتے وقت خود اپنی بوقلمونی اور وطن فروشی کی تواریخ کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔یہ بھی صاف بھول جاتے ہیں کہ ان کو آزادی غدر پارٹی کے بھگت سنگھ اور دیگر سورمائوں کے مجادلے کے نتیجے میں نہیں آئی ملی تھی بلکہ انہیں آزادی، ان زمین زاد حریت پسندوں کی پاپولر سیاستدانوں کے ہاتھوں شکست اور ایک برطانوی حکومت کے ڈیکلریشن کے بعد ملی تھی ۔جنگ عظیم دوئم میں برطانیہ یورپی اور افریقی محاذوں پر مصروف تھا اور ہندوستان میں گوروں کی عددی اکثریت نہ تھی اس کے باوجود پورے متحدہ ہندوستان میں ایک بھی جارج واشنگٹن نہیں تھا جو ان گوروں کو عوامی طاقت سے نکال باہر کرتا ۔
برطانوی سامراج اتنی جلدی میںبرِصغیر سے کوچ کرنے کو تیار نہ تھے۔جنگ عظیم دوئم میں جرمنی کے ساتھ جنگ میں تاج برطانیہ کی خوب درگت بن رہی تھی۔ امریکی ائیر فورس اور افواج نے اس جنگ میں کود کر برطانیہ کی جان چھڑائی تھی۔اس وقت امریکہ بہادر نے ایک سفید فام نسل پرست جرمن قوم کو تاراج کر کے برطانوی سفید فام کالونیل طاقت کو بچا لیا تھا۔اُس وقت کئی دانشوروں کو یہ قومیت کی بنیاد پر نسلی امتیاز نظر نہیں آیا تھا۔روزویلٹ نے برطانیہ کو ہندوستان جلد چھوڑنے کے لئے اپنی پوری قوت استعمال کی تھی جس کے آگے برطانیہ نہیں ٹک سکا تھا۔ ہمارے برِصغیر کی نام نہاد مراعات یافتہ جاگیر دار اور نوابی اور سیاسی اشرافیہ آج تک فرنگی بندوبست کی کسی نہ کسی طرح وفادار ہے اور بالخصوص مقامی باشندوں پر ظلم کرنے میں فرنگی آقائوں سے کئی ہاتھ آگے ہے۔
امریکی آئین اور امریکی عوام کا شعوری ارتقاء بہت سے کہنہ روایات کے حامل دیگر قدیم ممالک سے بہت آگے ہے۔اس میں کوئی شک نہیں امریکہ میں غلاموں کی خرید وفروخت اور ان سے جبری مشقّت لی جاتی رہی ہے۔لیکن اسی امریکہ نے 6 دسمبر 1865 کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 13ویں ترمیم کے ذریعے غلامی کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا تھا۔اس کے برعکس کئی مذاہب کے ماننے والوں نے غلاموں کی تجارت اور غلام داری نظام کے فروغ پر کبھی رجوع نہیں کیا۔
آج کل آپ امریکہ کے طول عرض میں نسل پرستی کے جذبات اور نسلی امتیازات کے خلاف جو تحریک دیکھ رہے ہیں اس کا حق بھی انہیں امریکی آئین سازوں نے 1791 میںپہلی آئینی ترمیم کے ذریعے سونپ دیا تھا۔اظہار رائے کی آزادی کا ہی کمال ہے کہ اس وقت عوام ہر ایسی پولیس کو ڈی فنڈ کرنے کی تحریک چلا رہے ہیں جو نسلی امتیازات اور تشدد برت رہی ہے۔ پہلی آئینی ترمیم کے مندرجات کو غور سے پڑھیں اور ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ کیا ایسی ترمیم برِصغیر کے ممالک میں آج کل سن 2020 میں بھی ممکن ہے ؟اسی برِصغیر میں مہاویر،گوتم بدھ اور کرشن مہاراج اور نانک جیسی برگزیدہ ہستیاں ہو گزری ہیں۔کیا ان مہان ہستیوں کے ماننے والے ایسی کسی ترمیم کے لئے تحریک چلا سکتے ہیں؟کیا ان کا نظام فکر نوآبادیاتی امپیریل ازم اور جات پات سے آزاد ہو پایا ہے؟
The First Amendment guarantees freedoms concerning religion, expression, assembly, and the right to petition. It forbids Congress from both promoting one religion over others and also restricting an individual’s religious practices. It guarantees freedom of expression by prohibiting Congress from restricting the press or the rights of individuals to speak freely. It also guarantees the right of citizens to assemble peaceably and to petition their government.
کیا برِصغیر کی حکومتیں افغانستان سمیت اپنے اپنے صوبوں اور یونین اکائیوں کے مقامی باشندوں کو اوپر لکھی آزادی کی ضمانت دے سکتی ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو آپ اپنے گھر کو دیکھیں امریکہ پر چاند ماری سے گریز کریں۔امریکی عوام اس مشکل مرحلے سے بھی عقلی تجزیے اور آئینی حقوق کی بدولت کامیابی سے خود ہی نمٹ ہی لیں گے۔
♦