حسن مجتبیٰ
(سال 2012 میں ایک امریکی فلم، کے خلاف پاکستان میں ہنگامے شروع ہوگئے تھے ، یہ کالم اس وقت لکھا گیا)
اسلامی دنیا میں صوفی ہی عاشقان رسول تھے جو فنا فی الرسول ہوگئے تھے۔ لیکن یہ کیسے عاشقان رسول تھے جنہوں نے اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم نفسوں کی جانوں اور ان کی ملکیتوں کو ہی عشق رسول کے نام پر فنا کر ڈالا۔
پندرہ افراد پولیس والوں سمیت ہلاک و زخمی ہوئے، کراچی میں چھ تاریخی سنیما نذر آتش کیے جانے سمیت اربوں روپوں کی املاک و روزگار تباہ کر دیے۔ حیدرآباد سندھ میں پریس کلب پر ڈنڈا برداروں نے حملہ کر کے ایک صحافی کو بھی زخمی کردیا۔
بقول مسلم لیگ نون رہنما صدیق الفاروق کے، ٹیری جونز امریکی قونصل خانے میں تو نہیں چھپا بیٹھا تھا نہ! اس آگ و خون کے کھیل سے جس میں بچوں کو بھی استعمال کیا گیا کوئی بڑی توہین رسالت ہوسکتی ہے؟
’میڈیا پر ریاستی کنٹرول کے ساتھ رہنے والے عرب دنیا کے مسلمانوں کیلیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ امریکہ اپنے تحریر تقریر کی آزادی کے قوانین کے ساتھ ایک نفرت کے پرچارک گروہ کی طرف سے بنائي گئی فلم کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتا؟‘ اخبار نیویارک ٹائمز نے اداریہ لکھا۔ لیکن پاکستان میں تو دعویٰ ہے کہ میڈیا آزاد ہے۔
نیویارک کے مصروف ترین ٹائمز سکوائر پر ہر روز چند افراد قدیم عہدنامے کے زمانے کی کاسٹیومز میں ہاتھ میں بائبل لیے مجمع لگاتے ہیں جو خود کو بنی اسرائیل کا گمشدہ قبیلہ کہتے ہیں۔ بھرے مجمعے میں وہ یسوع مسیح کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں اور ان کے خلاف کیا کیا نہیں کہتے۔
مجمعے میں کھڑے لوگ ، جن کی اکثریت ظاہر ہے عیسائی ہوتی ہے ان کی طرف غصے میں بھرے لپکتے ہیں لیکن وہاں موجود پولیس والے ایسے بڑھنے والے لوگوں کو ہی روک دیتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان مجمعے بازوں کے چندے کیلیے رکھی بڑی پلاسٹک کی بوتلوں میں چندہ بھی ڈالتے ہیں اور یہ روز کا معمول ہے۔
کچھ عرصہ قبل کتاب ڈاونچی کوڈ پر بھی بڑا ہنگامہ ہوا تھا لیکن کلام و کالموں اور پرامن اور لفظی احتجاجوں کے ساتھ۔ کتاب ڈاونچی کوڈ کتاب گھروں پر بکتی رہی تھی۔
اسی سال مارچ2012 میں انرجی ڈرنک یعنی توانائی بخش مشروب ’ریڈ بل‘ بنانے والے کمپنی نے جنوبی افریقہ میں ٹی وی پر ایک اشتہار چلوایا تھا جس میں یسوع مسیح کی پانی پر چلنے والی بائبل کی کہانی کو کارٹون فلم میں چلایا گیا تھا جس میں ان کا ساتھی دوسروں کو یسوع مسیح کے متعلق کہتا ہے ’یہ پانی پر کیسے چل سکتے ہیں لگتا ہے کہ انہوں نے ریڈ بل پی ہوئی ہے‘۔
عیسائی اکثریتی جنوبی افریقہ کے لوگوں، چرچ اور یہاں تک کہ ویٹیکن نے بھی ریڈ بل کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا لیکن پرامن۔ آخرکار ریڈ بل کو وہ اشتہار ہٹانا پڑا تھا۔اب وہ اشتہار شاید یو ٹیوب سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
لیکن کامیاب احتجاج کے طریقے پر امن اور قانونی ہوتے ہیں۔
جس طرح پاکستان اور مسلم دنیا کی اکثریت کا تعلق شدت پسندی سے نہیں اسی طرح امریکہ اور امریکیوں کی اکثریت کا تعلق بھی پیغمبر اسلام کی توہین کے متعلق بنائی جانیوالی وڈیو ( جو کہ صرف چودہ منٹ پر ٹریلر ہے ) سے نہیں۔ ہاں البتہ امریکہ میں بھی باقی دنیا کی طرح نفرت کے پرچارک اور نسل پرست ٹولے ضرور موجود ہیں جنہیں ہیٹ مونگرز کہا جاتا ہے۔ وہ ہرمذہب اور نسلی گروہ میں موجود ہیں۔
ماضی قریب تک نیویارک میں ایک اردو کا ہفت روزہ ’ندائے حق‘ کے نام سے نکلتا تھا جس میں خاص طور پر شیعہ مسلمانوں اور عام طور تمام مسلمانوں کیلیے برگزیدہ ہستیوں اور خاص طور اہلیبیت یا خاندان رسول کی کئي شخصیات کی توہین سے تمام اخبار کی سرخیاں بھری ہوتی تھیں۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ احمدیوں کے روحانی پیشوا کے متعلق پاکستان میں کیا کیا کچھ منفی نہیں کہا اور شائع و نشر کیا جاتا۔ یہاں تک کہ آئینی و قانونی طور ان کے خلاف بھرنے کو فارم بھی موجود ہیں۔
جنوبی کیلیفورنیا میں میڈیا فار کرآئسٹ نامی ایک تنظیم نے یہ فلم بنائی ہے اور اس کے لیے دس لاکھ ڈالر کا چندہ بھی اکٹھا کیا تھا جبکہ اس فلم بنانے والا نکولا باسولی نکولا ایک سابق سزا یافتہ بنک فراڈیہ ہے جس کی طرف سے فلم بنانے کا امریکی حکومت یا امریکی عوام سے تعلق نہیں۔
لیکن نیویارک میں مسلمانوں کی ممکنہ دل آزاری پر مبنی ایک اشتہار زیر زمین ٹرینوں یا سب وے اسٹیشنوں پر کچھ دنوں ہفتوں میں ہی ایک تنظیم کی طرف سے لگایا جانا ہے جس کے خلاف کوئی اور نہیں پر نیویارک کی سفری مواصلات کا محکمہ اور شہری حکومت کی ایم ٹی اے یعنی میٹرو ٹرانسپورٹیشن اتھارٹی عدالت میں گئی ہوئی تھی ۔
ایم ٹی اے عدالت میں کیس ہارگئی کیونکہ جج نے ایسے اشتہار کو ’فری اسپیچ‘ یا تقریر و تحریر کی آزادی کے قانون کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر نیویارک کے کچھ سب وے سٹشینوں پر آویزاں کرنے کے فوری اطلاق کا حکم جاری کیا ہے۔ ایک یہودی تنظیم کی طرف سے اس اشتہار کی تحریر کچھ یوں ہے ’وحشانیت کو شکست دیکر تہذیب کی حمایت کریں۔ جہاد کو شکست دیکر اسرائیل کی حمایت کریں‘۔
آزادئ اظہار رائے کے قانون کے تحت نیویارک سٹی کی ایم ٹی اے نے ایک مسلم تنظیم کی طرف سے دو سال قبل ٹرین نمبر سات پر جو کہ نسلی گروپوں کی مسافروں کے سفر کے حوالے سے سب سے بڑی ٹرین سمجھی جاتی ہے، رمضان کے مہینے میں قرآن کی آیتیں لگانے کی اجازت دی تھی لیکن کئي کٹر عیسائي تنظیموں اور نسلیت پسند پریس میں منفی کوریج کی وجہ سے خود ’اکنا‘ نے یہ فیصلہ ملتوی کردیا۔
اسی حق اظہار آزادئ رائے کے تحت ہی نیویارک کے میئر نے گیارہ ستمبر کی یادگار کے قریب گيارہ منزلہ مسجد و اسلامی مرکز کی تعمیر اجازت دی ہے۔ آزادئ اظہار رائے کو ابھی مسلمانوں کو سمجھنا پڑے گا کہ اس میں رائے کے اظہار کی آزادی اور نفرت کے بیچ بہت ہی باریک لکیر ہے۔
بی بی سی اردو، 20ستمبر2012