تبلیغی جماعت:میوات اور رائیونڈ سے تل ابیب تک

طارق احمد مرزا

کچھ عرصہ قبل انہی صفحات میں اس موضوع پر راقم کے کچھ آرٹیکلزشائع ہوئےتھے۔مسلم دنیا ،خصوصاً برصغیر ہندوپاک میں یہ رواج پایاجاتا ہے کہ دوسروں کو یہودی ایجنٹ،اسرائیلی ایجنٹقرار دیتے زبانیں نہیں تھکتیں ،لیکن خود خفیہ و اعلانیہ صیہونی یہودی مملکت کے سربراہوں سے ملنے ،انہیں ہار اور چادریں پہنانے اور اسی طرح اسرئیل میں اپنے پوائنٹس آف کانٹیکٹ بنانے اورمراکز قائم کرنے میں کوئی عارمحسوس نہیں ہوتا۔

مولانا طارق جمیل صاحب اس لحاظ سے نڈر اور کھرے انسان ہیں کہ کھلے عام بتا چکے ہیں کہ انہیں اسرائیل سے بھی ٹیلی فون آتے رہتے ہیں۔اس میں کسی کو کوئی سازشی تھیوری قائم کرنے یا مولانا پراسرائیل سےرابطے کرنے کا مضحکہ خیز الزاملگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔سادہ سی بات ہے۔اسرائیل میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان بھی بستے ہیں جو اسرائیلی شہری ہیں۔اور ان میں سے کسی کا مولانا سےرابطہ میں رہنا  یا کسی یہودی سے بات کروانا کوئی گناہ یا جرم نہیں۔خصوصاًجب کہ اسرائیل میں تبلیغی جماعت کے مراکز بھی قائم ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ دیوبندی مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والی تبلیغی جماعتنے قریباً 90 برس قبل میوات (ہندوستان) میں جنم لیا۔ اس کی شاخیں پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں قائم ہو چکی ہیں اوران میں اسرائیل بھی شامل ہے۔چنانچہ مفتی محمود بن مولاناسلیمان حافظجی بارڈولی استاذ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل،گجرات۔(انڈیا) اپنے سفرنامہ دیکھی ہوئی دنیا،(حصہ سوم) میں لکھتے ہیں

کہ اسرائیل کی سیرکے دوران: “۔ ۔ ۔ 16 تاریخ کودعوت وتبلیغ سے جڑے ہوئے ایک ساتھی سے ملاقات ہوئی جو ہمارے حضرت شیخ الحدیث مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم سے عقیدت وتعلق رکھتے ہیں۔وہ مدینہ منورہ میں ملے تھے،ہم ان کے مہمان بنے انہوں نے کہا کہ:آج میں آپ لوگوں کو زیارت کرواؤں گا۔۔۔۔یہ شیخ ریاض العجوتھے،وہاں ان کی فلافل العجوکے نام سے ایک شاندار ریسٹورنٹ ہے،وہاں لے جا کر ہم سے دعا بھی کروائی۔۔۔۔وہ ہمیں لے کر اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب گئے۔

یہ 14 مئی 1948 کو  عمل میں آنے والی حکومت اسرائیل کا یہ ایک شہر ہے،یہ شہرسمندرکے کنارے پر واقع ہے،اس شہرکاکشادہ اور عالی شان ائرپورٹ ہے۔۔۔سب سے پہلے ہم تل ابیب میں دعوت و تبلیغ کے مرکز پر پہنچے۔۔۔۔ الحمدللہ ! تل ابیب میں دعوت وتبلیغ کامرکز قائم ہو چکا ہے،بالکل ہندوستانی اندازکا سیدھا سادھا مرکز ہے،بستر لگے ہوئے ہیں،مطبخ بھی ہے،اور یہاں سے تل ابیب کاائرپورٹ بالکل قریب ہے۔تل ابیب میں اس طرح کا مرکز دیکھ کربہت خوشی ہوئی،اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے حفاظت میں رکھے۔۔۔۔ جب وہاں گئےتوبتایاگیا کہ چند دن پہلے یہاں بہت بڑا اجتماع ہوا تھاجس میں دنیا بھر سے چھ ہزارلوگوں نے شرکت کی تھی اور تقریباً چھیاسی جماعتیں چلہ اور چارمہینے کی روانہ ہوئیں۔

بحوالہ: “دیکھی ہوئی دنیا۔حصہ سوم۔ مصنفہ مفتی محمود بن مولاناسلیمان حافظجی بارڈولی استاذ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل،گجرات۔(انڈیا) ۔ طبع اول رجب المرجب 1439 ھجری، ناشر نورانی مکاتب صفحات-269-270

 (www.noorani makaatib.com)

تبلیغی جماعت کا یروشلم میں مرکز قائم نہ کرنے کی وجہ

اسرائیل نیشنل نیوز (آرتوزکی نامہ نگار  اور مصنفہ ریبکا ابرہمسان نے تحقیق کی غرض سے اسرائیل میں تبلیغی جماعت کے ایک رکن شیخ ابراہیم سے ملاقات کی۔ایک سوال کےجواب میں شیخ صاحب نے بتایاکہ تبلیغی جماعت نے اپنا ہیڈکوارٹر یروشلم میں کھولنے سے انکارکردیا تھا جس کی سادہ وجہ یہ ہے کہ یروشلم کویہودی اپنا دائمی دارالخلافہ گردانتےہیں اس لئے ہمارے لئے مناسب نہ تھا کہ ہم اپنا ہیڈ کوارٹروہاں قائم کرتے۔

اختلافات کو مہدی ومسیحؑ آکر ختم کریں گے

شیخ ابراہیم صاحب نے بات جاری رکھتے ہو ئے کہا کہ جب مہدی (مسیح ) آئیں گے تو وہ ہمارے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو ٹھیک کر دیں گے۔ اس لئے ہمیں ایسا کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں جسے جارحیت پرمحمول کیا جا سکے۔

جہاد بالسیف کی اجازت خلیفہ ہی دے سکتاہے

مضمون نگار کے مطابق شیخ ابراہیم نے جہاد کے حوالہ سے کہا

اگرکوئی ملک  تبلیغ کی اجازت دیتا ہے تو اس کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت بالکل نہیں۔امریکہ اور اسرائیل دو ایسی مثالیں ہیں جو دعوۃ کی اجازت دیتے ہیں۔اسی لئے وہاں ہمارے مراکز ہیں۔اسرائیل میں ہمارے مراکز لُدّ،غزہ،ہیبرون اور ویسٹ بینک کے کچھ حصوں میں ہیں۔ ان حالات میں غیرمسلموں کے ساتھ جنگ کرنے کے (شرعی) احکامات کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔۔ ۔ ۔ مزید برآں یہ کہ خلافت کی غیرموجودگی میں تو جہاد بالسیف (مسلح جہاد) قطعاً ممنوع قراردیا گیاہے۔

برٹش کی پروان یافتہ جماعت؟

مضمون نگارنے لکھا ہے کہ تبلیغی جماعت کے اس جہادی فلسفہ کے حوالہ سے اس پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ تبلیغی جماعت کوبرٹش دورمیں خوب پروان چڑھایاگیا کیونکہ انگریزوں نے محسوس کیا کہ یہ جماعت مسلمانوں کو کافروںکے خلاف جہادپر نہیں اکساتی بلکہ اپنی توانائیاں مسلمانوں پر ہی خرچ کرتی ہےاوریہ کہیہ تحریک جہادکے تصورسے کلیتاً عاری ہے۔

یہودی بے فکر رہیں

مضمون نگارربیکہ ابراہامسن تبلیغی جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتی ہیں کہ جماعت کو محمدالیاس الکاندھلوی نے انڈیا میں 1927 میں قائم کیاتھا۔ وجہ یہ بنی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں میں روزافزوں اخلاقی انحطاط کو محسوس کیاتو اس نتیجہ پر پہنچے اور اس نظریہ کی ترویج کی کہ اپنی انفرادی حالت سدھارے بغیر کوئی مسلمان غیروں کو مؤثرتبلیغ نہیں کرسکتا۔اس لئے ان کا ماٹواے مسلمانو،مسلمان بن جاؤتھا۔

تبلیغی جماعت کے کسی بھی رکن کے لئے غیرمسلموں کو تبلیغ کی اجازت اس وقت تک نہیں جب تک وہ خود اعلیٰ صفات کا حامل نہیں ہوجاتا۔

مضمون نگار نے یہودیوں کو اسرائیل میں تبلیغی جماعت کا رابطہ نمبردیتے ہوئے تسلی دی کہ بے فکر ہوکر ان سے رابطہ کریں یہ آپ کو تبلیغ نہیں کریں گے !۔

http://www.israelnationalnews.com/Articles/Article.aspx/17030#_ftn6

 

Comments are closed.