پاکستانی پارلیمنٹ کی ریاست کے سامنے کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس جس کے سربراہ پیپلزپارٹی کے سینٹر فاروق ایچ نائیک ہیں، میں وفاقی سیکرٹری جہازرانی رضوان احمد جمعرات 18 جون کو پیش ہوئے۔
کمیٹی نے ان سے گوادر پورٹ کے معاہدے اور اس سے متعلقہ دستاویزت اجلاس میں لانے کا کہا تھا۔ سیکرٹری نے کمیٹی کے چئیرمین سے کہا کہ گوادر پورٹ سے متعلق معاہدے کی تفصیلات اور دستاویزات کمیٹی کے ارکان کو نہیں دکھائی جاسکتیں کیونکہ اس معاہدے کی شرا ئط خفیہ ہیں۔انھوں نے معاہدے کی ایک شق پڑھی جس کے مطابق معاہدے کی شرایط کو فریقین خفیہ رکھنے کے پابند ہیں۔
کمیٹی کے ارکان سینٹرزمصدق ملک، طلحہ محمود، عائشہ رضا اورعتیق شیخ نےسیکرٹری کے بیان پرغصے اور ناراضی کا اظہار کیا لیکن سیکرٹری اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور انھوں نے کہا کہ ارکان کے ساتھ گوادر پورٹ معاہدے کی تفصیل شئیر نہیں کی جاسکتی۔
کمیٹی کے ارکان کے غصے اور ناراضی کو دیکھتے ہوئے چئیرمین کمیٹی نے تجویز دی کہ کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس بلالیا جائے اور وہاں معاہدے کی تفصیلات سیکر ٹری پیش کردیں۔ ان کیمرہ اجلاس میں ایک گھنٹے کے لئے دستاویزات معاہدہ ارکان میں تقسیم کی جائیں اور ایک گھنٹے کے بعد معاہدے کی نقول ارکان سے واپس لے لی جائیں۔ بہت زیادہ ردوکد کے بعد سیکرٹری اس شرط پر معاہدے کی کاپیاں ارکان کو تیار ہوگئے لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ آج تو نہیں اگلے منگل کو وہ کمیٹی کے ارکان کو ایک گھنٹے کے لئے معاہدے کی نقول فراہم کریں گے۔
پاکستان کی حکومت نے 2006 میں سنگا پور کی ایک کمپنی سے گوادر پورٹ بارے معاہدہ کیا تھا جو بعدازاں 2013 میں چین کی کمپنی کو دے دیا گیا تھا۔سیکرٹری نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ ماضی میں بھی معاہدے کی نقول ارکان اسمبلی کے ساتھ شئیر نہیں کی گئیں۔کمیٹی کے ارکان نے گوادر پورٹ کے مختلف شعبوں کے ٹھیکے اور ذیلی ٹھیکےجن کمپنیوں کو دیئے گئے ہیں، پر اظہار ناپسندیدگی کیا۔
یاد رہے کہ گوادر پورٹ پر کام کرنے والی کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جنھیں 40 سال تک ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے۔ سیکرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ نہ صرف گوادر بلکہ کچھ اور معاہدے بھی ایسے ہیں جو خفیہ ہیں اور ان میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن سے ہونے معاہدہ بھی شامل ہے۔ کمیٹی کے رکن سینٹر محمد اکرم نے کہا کہ گوادر میں کام کرنے والی ٹھیکے دار کمپنیاں بلوچستان کی ترقی ور خوشحالی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں اورمقامی لوگوں کی بہتری کے لئے انھوں نے کوئی پراجیکٹ نہیں شروع کیا اور نہ ہی مقامی افراد کو روزگار مہیا کیا گیا ہے۔
یہ رپورٹ ، 18جون کے ڈیلی ڈان میں شائع ہوئی لیکن ویب ایڈیشن سے ہٹا دی گئی ہے۔
لیاقت علی