رضوان عبدالرحمان عبداللہ
امریکہ کے شہر منی ایپلس میں ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہروں کا تسلسل اور پھر ملک کے فوجی سربراہ کا فقط ایک جاری کردہ تصویر پر قوم سے معافی مانگنا ’’آمر جمہوریت‘‘ کے چھاوں تلے ہم جیسے پروان چڑھنے والوں کے منہ حیرت سے کھل چکے ہیں۔
حیرانگی اس بات پہ کہ آخر کیوں یہ لاکھوں لوگ ایک ’’کالے‘‘ کی موت کے بعد پولیس کے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کھانے کے لئے اتاولے ہورہے ہیں؟ اگر مرحوم جارج بھائی کسی سیاسی خاندان کے چشم و چراغ ہوتے تو بھی سمجھ میں آتی کے مقصد سیاست چمکانا ہے، تعلق کسی مذہبی گروہ سے ہوتا تو گمان کرتے کہ ہمدردی بٹورنے کا کوئی چکروکر ہے، کسی طاقتور ادارے کی نوکری کر رہے ہوتے تو خیال کیا جاتا کہ رفقا ادارے کی قربانیوں کو لازوال کرنے کے مشن پر نکلے ہیں۔ پر یہاں تو 46 سال کے اس سیاہ فام کی موت پر ہنگامہ برپا ہے جس کا گزر بسر ایک ہوٹل میں سیکیورٹی گارڈ کی نوکری پر تھا۔
اگر ہمارے ملک میں اس قسم کا مجرم پولیس اہلکار کے گھٹنے تلے دبا ہوتا تو پولیس والے کو اس کی فرض شناسی پر داد دینے کا جی چاہتا جبکہ سانس بند ہونے کی وجہ کو قدرت کا فیصلہ گردانا جاتا۔ پر جانے یہ کون لوگ ہیں جو سیاہ فام امریکیوں اور فلائیڈ کو انصاف کی فراہمی کے لئے سڑکوں پر ہلکان ہوتے پھر رہے ہیں۔ شکر ہے اس قسم کا ”عوامی شعور‘‘ ہمارے ملک نہیں پایا جاتا ورنہ یہاں پر بھی سڑکوں پر ’’بلوچ لائیو میٹر‘‘ یا ’’پختون لائیو میٹر‘‘ کے نعرے بلند کرنے کے لئے نا تو ظالموں کی کمی ہے اور نا ہی مظلوموں کی۔
مظاہرین سے نمٹنے کی صدر ٹرمپ کی حکمت عملی پر بات کی جائے تو جانے کیوں صدر ٹرمپ اس واقعے سے صدمے میں جانے کے بعد بھی مظاہرین کو گولیاں مارنے یا ان پر خونخوار کتے چھوڑنے کے متمنی نظر آئے۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر وہ اس معاملے میں ہمارے خان صاحب سے صلح کرتے۔ پولیس اہلکار کا فلائڈ کی گردن کو اپنے گھٹنے سے دبائے رکھنا کا منظر ہر گز اتنا دہشت ناک نہیں تھا جتنی درندگی ساہیوال میں کم سن بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے چھلنی کر کے دکھائی گئی۔
پر خان صاحب کی فطانت دیکھیں انہوں نے عوام کے منہ میں ملزمان کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کی ایسی چوسنی ڈالی کہ عوام ابھی تک اس کی “چاشنی” کو یاد کرتے ہیں۔ ریاست کو اس کا یہ فائدہ ہوا کے وہ پولیس کے محکمے میں اصلاح کے وعدے کو گول مول کر گئی اور واقعے میں ملوث سیکیورٹی اہلکار بھی بری ہو کر امید ہی مزید ’’شکار‘‘ کی نیت باندھتے پھرتے ہوں گے ۔
خیر اب بات کرتے ہیں جائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک مائیلی کی معافی کی ہوا کچھ یوں کے یکم جون کو وائٹ ہاؤس کے باہر ایک پرُامن مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ مظایرین کو منتشر کرنے کئے شیلنگ کی گئی، جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وہاں کا دورہ کیا جن کے ساتھ جنرل مائیلی موجود تھے، دورے کی تصاویر جا رہی ہوئیں جن سے جنرل صاحب کو لگا ہے کہ وہ فوج کی داخلی سیاست میں ملوث ہونے کا منفی تاثر ابھارنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بس پھر کیا ہونا تھا جنرل صاحب کیمرے کے سامنے آن کھڑے ہوئے اور معافی طلب کرنا شروع کردی۔
ایسے مناظر دیکھ کر سب سے پہلے تو خدا کا یہ شکر ادا کرنا چاہا کہ ہمارے ہاں کبھی کوئی جرنیل معافی مانگنے کی بدعت و خرافات میں نہیں پڑا ورنہ دشمنان کے سامنے ہمارا کیا بھرم رہ جاتا! کاش مارک صاحب بھی معافی مانگنے سے پہلے سوچ پاتے کہ ان کی اس حرکت سے ان کے ادارے کے مورال پر کیا بیتے گی؟ چلیں انہیں اپنی اور اپنے ادارے کی پرواہ نہیں تھی تو اپنے ان “ہم عصروں” کا ہی خیال کرلیتے جن کی خدمات گاہے بگاہے لینی پڑتیں ہیں۔
بھلا دنیا کے سپرپاور ملک کے فوجی سربراہ کے لئے نہتے مظاہرین سے جان جھڑانا کونسا مشکل کام تھا؟ ایک آدھ کو گھر سے اٹھا کر خاطر مدارت کرتے، ایک آدھ کو دفتر میں مہمان نوازی کا شرف بخشتے نہیں تو بھرے مجمعے میں جا کر لفافے تھماتے۔ معاملہ ٹھںڈا کرنے کی داد بھی ملتی اور طاقت کے نشے میں سرمست بھی ہوا جا سکتا۔ لیکن یہاں تو الٹا چیف صاحب احتیاط کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اپنے فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی ہدایت کر رہے ہیں کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے فوج کے ملکی سیاست میں ملوث ہونے کا تاثر پیدا ہو۔
خیر یہ سوچئے جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکا میں جو کچھ ہورہا ہے اگر پاکستان میں ایسا کچھ ہو رہا ہوتا تو ہمارے جرنیل کہاں کھڑے نظر آتے؟
کمانڈر انچیف ایوب خان کے ہاتھ میں عسکری قیادت ہوتی تو اعلان ہو چکا ہوتا کہ چونکہ ملک شدید بحران کی طرف جارہا ہے لہٰذا ان کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑرہی ہے۔ اس قسم کی ایجی ٹیشن سے نمٹنے کے لئے جنرل یحییٰ خان سے بہتر امیدوار کون ہو سکتا تھا؟ مظاہرین سے نمٹنے کے بعد شاید جنرل ٹکا خان کو یاد کرنے کے لئے صرف بنگلہ دیش کے قصائی کا حوالہ نا دینا پڑتا۔
جنرل ضیا الحق کونا صرف ریاست کو للکارنے والوں کی پیٹھیں لال کرنے کا سنہرا موقع مل جاتا بلکہ وہ تو کامیابی سے مخالف دھرنے کو ملک کے عوام سے بھی بے خبر رکھ پاتے۔
جنرل اسلم بیگ تو خوش اسلوب حل کے لئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ تاجروں کی بھی خدمات حاصل کرتے نظر آتے ۔ جبکہ جنرل وحید کاکڑ سے حکومت اور مظاہرین کے درمیان شٹل ڈپلومیسی کی سہولت لی جا سکتی۔ جنرل مشرف نا صرف مظاہرے کرنے والوں کی طرف مکے لہرتے بلکہ مطلع بھی کرتے کہ ان کو وہاں سے ہٹ کیا جائے گا، پتا بھی نہیں چلے گا۔
جنرل کیانی اس صلاحیت سے بہرہ مند تھے کہ ایک فون پر احتجاج کی نیت باندھنے والوں کو واپس کیسے لوٹانا ہے، جبکہ ان کی کمان میں تیسری قوت کو تیار کرنے کا کام دیکھا جا سکتا۔ جنرل راحیل شریف تو فریقین کو اپنے گوڈوں کے پاس بٹھا لیتے اور مذکرات کی صدارت کردیتے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ چونکہ حاضر سروس ہیں تو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ پاک آرمی کے ایسے باصلاحیت، فرض شناس، پروفیشنل سربراہ ہیں جن کا پولیٹکل انجنیئرنگ کے مکروہ دھندے سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا۔
اس صورتحال میں پارلیمنٹ اور عدالیہ کا کردار ڈھونڈنا ہو تو وہ فقط عسکری قوت کے اقتداری ایجنڈہ کو سہولت دیتے نظر آئیں گے۔ شاید ہم خوش قسمت قوم ہیں ہمارے وطن عزیز کا قانون نا صرف خود اندھا، گونگا، بہرہ اوراپاہج ہے بلکہ ہمیں بھی بنا چکا ہے، ورنہ خروٹ آباد سانحہ، باغ ابن قاسم میں رینجرز کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت نقیب اللہ محسود کا جعلی پولیس مقابلہ، سانحہ ساہیوال جسے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جن میں ہمیں بھی انصاف طلب کرنے کی ضرورت پڑتی۔
♦