محمد حسین ہنرمل
ہمارے معاشرے میں بہت چھوٹی اور معمولی باتوں پر بھی انسان کی جاں لینا ایک معمول بن چکا ہے ۔ اس سماج میں بعض بے چارے انسان تو ایسے مشتعل ظالموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہوتے ۔ چند سال پہلے مردان کے عبدالولی خان یونیورسٹی کا طالبعلم مشال خان کا بے رحمانہ قتل اس نوعیت کے ظلم کی ایک بڑی مثال ہے ۔
مشال خان توہین مذہب کے الزام میں یونیورسٹی کے مشتعل نوجوانوں کے ہاتھوں انسانیت سوز طریقے سے نہ صرف شہید ہوئے تھے بلکہ ان کے لاش کامُثلہ کرکے جس انداز سے اس کی بے توقیری کی گئی ، اس پر الامان والحفیظ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ کل جمعہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاون میں تین نوجوان لسانیت کے نام پر ایسے ہی بے رحم ظالموں کے ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے جنہوں نے مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں جاں سے مارا تھا۔ اس دل خراش واقعے کی مذمت کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ کم پڑگئے ۔
کوئٹہ شہر کے مغرب میں واقع ہزارہ ٹاون وہ علاقہ ہے جہاں پر صرف ہزارہ برادری کے لوگ آباد ہیں ۔ ماضی میں دہشت گرد حملوں کی وجہ سے یہ علاقہ آج بھی وہاں کے مکینوں نے کوئٹہ کے پر امن لوگوں کیلئے بھی تقریباً نوگو ایریا بنادیا ہے ۔ جمعہ کی شام خروٹ آباد سے تعلق رکھنے والے تین پشتون نوجوانوں بلال خان نورزئی اور ان کے دو ساتھی اپنا قرض وصول کرنے ہزارہ ٹاون گئے تو وہاں پر ایک مشتعل افراد نے انہیں انتہا درجے کی تشدد کا نشانہ بنا ڈالا ۔
جرم ان کا یہ بتایاجاتا ہے کہ وہ اپنے موبائل فون سے وہاں کے لوگوں کی ویڈیو بنا رہے تھے ۔ تشدد کیا تھی ،پتھروں، لوہے کے راڈوں اور چریوں کے ذریعے بلال نورزی کو ہلاک اور ان کے دو ساتھیوں کو سخت زخمی کردیا۔ تشدد کرنے والے آخر سینکڑوں افراد کی ایک مشتعل ہجوم کی شکل اختیار کرگئی ، جہاں ہر ایک نے حتی الوسع ان نوجوانوں کو مارنے میں حصہ لیا۔
اطلاع ملنے پر پولیس جائے وقوعہ پر ضرور پہنچ گئی لیکن ان نوجوانوں کو سیکورٹی فراہم کرنے کی بجائے الٹا تشدد کرنے والوں کو بھگا دیا – ہزارہ برادری کے مشتعل ہجوم نے ان بے بس لڑکوں کے اوپر پہلا ظلم تو یہ کیا کہ ایک معمولی ایشو پر ان پر ٹوٹ پڑے اور انہیں انسانیت سوز طریقے سے ٹارچر کیا۔ دوسرا ظلم وہاں پر یہ ہوا کہ چند افراد کی بجائے اس کمیونٹی کے سینکڑوں لوگوں نے باری باری تشدد میں حصہ لیکر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ چوتھا ظلم یہ کہ تشدد کے بعد برہنہ حالت میں ان مظلوموں کی تصویریں اور ویڈیوز بھی بنوائی۔
یاد رہے کہ کوئٹہ میں کئی دہائیوں سے لاکھوں کی تعداد میں آباد ہزارہ برادری کے لوگوں کو کوئٹہ کے پشتونوں اور بلوچوں نے ہر وقت اپنا بھائی کہا ہے جس کا اعتراف خود اس برادری کے لوگ بھی کرچکے ہیں ۔
ماضی قریب میں اس برادری کے بیگناہ لوگوں پر انتہا پسندوں کی طرف سے حملے ہورہے تھے تو کوئٹہ ہی کے پشتون اور بلوچ تھے جو مشکل کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ شانہ کھڑے رہے ۔ لیکن حالیہ پر تشدد واقعے کے بعد اب جابجا یہ سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ اس برادری کے سینکڑوں لوگوں نے چند معصوم پشتون لڑکوں پر آخر اپنے غیض وغضب کی انتہا کیوں کردی؟ کیا سینکڑوں گھرانوں پر مشتمل اس بستی میں مٹھی بھر ایسے لوگ بھی موجود نہیں تھے جو بر وقت اس مشتعل ہجوم کو روک پاتے میں ؟
ذاتی طور پر مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا کہ اس بربریت میں پوری ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کی خاموش تائید شامل تھی ۔ میرا نہیں خیال کہ یہ انسانیت سوز جرم ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا لیکن بطور ایک برادری کے ہزارہ کمیونٹی کے بڑوں ، علماء کرام اور سیاسی رہنماووں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنوں لوگوں کو اس طرح کے معمولی ایشو کو بربریت کے ذریعے نمٹانے (اور وہ بھی اجتماعی طور پر )سے روکے جس سے لسانیت اور علاقائیت کا پیغام ملتا ہو۔
سوشل میڈیا پر اس المناک حادثے کی تصاویر دیکھ کر ہر کسی کا دل فگار اور آنکھیں نم ہوگئیں۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر بہت سے لوگ ابھی سے اسے لسانی رنگ بھی دے رہے ہیں جبکہ بہت سے عناصر اس کو فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھ کر پوری ہزارہ برادری پر تبرائیں بھیج رہے ہیں ۔
ہزارہ برادری کے علماء کرام اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے دردمندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ واقعے میں جتنے بھی لوگ ملوث ہیں انہیں فوری طور پر حکومت وقت کے حوالے کریں، ایسا نہ ہو کہ معاملہ مذہبی یا لسانی شکل اختیار کرکے خون خرابے کی طرف بڑھے۔ ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ایکٹیویٹس حضرات لسانیت اور فرقہ واریت پر مبنی پوسٹوں سے احتراز کریں اور ہوشمندی کا ثبوت دیں۔
وما علینا الاالبلاغ۔۔۔۔۔۔۔۔