منیر سامی
جس سالِ حُزن نے ایک بلا کی طرح سے ہمیں گھیرا ہے ، اُس کا تازہ ترین اور سنگین گھاؤ ، ممتاز ادیب، نقاد، دانشور، ادبی محرک ،جواں سال ، ڈاکٹر آصف اسلم ٍ ؔ فرخی کی ناگہانی موت ہے۔ان کی عمر صرف ساٹھ سال تھی۔ان کے یوں چلے جانے کایقین ان کے دوستوں کو ان کی تدفین کے بعد بھی نہیں ہورہا ہوگا۔ سب یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ اپنے ہی کسی افسانوی کردار کی طرح اب وہ کہیں اورکوئی ادبی میلہ سجانے کی فکر ، یا کسی جامعہ میں اردو زبان و ادب کی تدریس اور ابلاغ کا کوئی درس تیار کر رہے ہوں گے۔ ہم معذرتاً عرض کردیں کہ ان کا ہمار ا تعلق کئی دہائیوں پر محیط ہے جس میں ہمارے والدین کے تعلقات بھی شامل ہیں۔ سو اگر تحریر میں کہیں کہیں اس کا ثر نظر آئے تو آپ ہمیں معاف کردیں۔ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز۔
آصف فرخی کا تعلق برِ صغیر کی ثقافت اور زبان سے بہت دیرینہ ہے۔ ان کے والد ڈاکٹر اسلم فرخی سے تو سب واقف ہیں۔ شاید کم لوگ یہ جانتے ہوں کہ ان کی والدہ، ڈپٹی نذیر احمد کی اولادوں میں شامل ہیں، اور یہ کہ ممتاز مدیر، مصنف اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی بھی ان کے قریبی عزیز تھے۔ ممتاز ادیب اور سماجی عمل پرست انور احسن صدیقی ان کے چچا تھے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ آصف فرخی خود پیشہ کے اعتبار سے طب کے ڈاکٹر تھے، جنہوں نے کراچی کے ساتھ ساتھ امریکہ اور برطانیہ سے بھی اعلیٰ اسناد حاصل کی تھیں۔ اور وہ سالہا سال اقوامِ متحد ہ کے ایک اہم ادارے سے منسلک تھے اور پاکستان میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
ان کے افسانوں کی پہلی کتاب ’آتش فشاں پر کھلے گُلاب‘ ، سن بیاسی میں شائع ہوئی تھی۔ پھر اپنے انتقال تک ان کے سات افسانوی مجموعہ شایع ہوئے۔ اور تنقیدی مضامین کے دو مجموعے۔ انہوں نے اہم ادیبوں کے انٹرویو بھی کیے۔ وہ پاکستا ن کے اہم انگریزی جرائد میں پابندی سے شرکت کرتے رہے۔ ادیبوں کو یکجا کرنا اور ان کی از حد امکان مدد کرنا ان کا خاصہ تھا۔ انہوں نے اپنے اشاعتی ادار ے ، ’شہر زاد پبلی کیشنز‘ کے تحت ’ دنیا زاد ‘ کے نام سے ایک موقر ادبی جریدہ بھی شائع کیا۔ جس کے بارے میں بعض احباب کا یہ خیال بھی ہے کہ یہ ، اجمل کمال ؔ کے ممتاز جریدہ ’ آج ‘ کی طرز پر شائع ہوتا تھا ، اور اس کو بھی قبولِ عام حاصل ہوا۔
اس کے ساتھ ساتھ ان کا ایک اہم کام ، اہم ادارے آکسفورڈ یونیور سٹی پریس کی معاونت سے ایک ادبی میلہ جاری کرنا تھا۔ یہ میلہ ، کراچی لٹریر ی فیسٹول ، (کے ایل ایف کے) نام سے مشہور ہے۔ بدقسمتی سے انہیں تقریباً دس سال کے بعد اس سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی ۔ اور انہوں نے ادب فیسٹول کے نام سے ایک اور میلہ شروع کردیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کے ایل ایف کے بعد اور اس کی تقلید میں پاکستان میں کئی اور ادبی میلوں کااجرا ہو ا، جو پاکستان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ان کی خدمات کے صلہ میں انہیں اہم حکومتی اعزاز بھی عطا کیے گئے۔
آصف فرخی نے کینیڈامیں قانونی قیام کا حق حاصل کیا تھا ، لیکن انہوں نے شہریت حاصل نہیں کی۔ وہ بارہا کینیڈا آئے۔ وہ کینیڈا کی کئی ادبی سرگرمیوں میں شریک ہوتے رہے۔ جن میں’رائٹرز فورم‘ کے اہم پروگرام، ممتاز ادیب ایم جی وسانجی کی سربراہی میں ٹورونٹو لٹریری فیسٹول ، اور کینیڈا کا اہم ترین ادبی میلہ ، ہاربر فرنٹ فیسٹول ‘ بھی شامل ہیں۔
یہ ہمارا اعزا ز ہے کہ ان کے کینیڈا کے ہر قیام کے دوران ہمیں ان کی میزبانی کا موقع ملا۔ وہ رائٹرز فورم کے جشنِ انتظار حسین میں شرکت کے لیے انتظار حسین کی معاونت کے لیے ان کے ساتھ آئے، اس موقع پر انتظار حسین ، ہاربر فرنٹ فیسٹول میں بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر ان کا تعارف اور انگریز ی ترجمہ آصف فرخی ہی نے کینیڈین ادیبوں کو پیش کیا۔ اس شرکت کا محرک بھی کینیڈا کا ادبی ادارہ رائٹرز فورم ہی تھا۔ یہ اس ادارے ہی کا اختصاص ہے کہ ممتاز پاکستانی مصنف ،ادیب عبداللہ حسین کو ہاربر فرنٹ فیسٹول میں اسی نے شریک کیا۔ کینیڈا کے ادبی میلوں کا آصف پر بہت اثر پڑا ۔ ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ یہی ادبی میلے ، ان کے کراچی لٹریری فیسٹیول کا محرک تھے۔
یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ جب سندھ میں سندھی اردو تنازعات زوروں پر تھے، اور سندھی ادیبوں کی نگاہ میں اردو زبان کا غلبہ تھا۔ اس مشکل دور میں یہ آصف فرخی ہی تھے جو اردو سندھی ادیبوں کے درمیان رابطہ بنے۔ انہوں نے اپنے جرائد میں اہم سندھی ادیبوں کو شامل کیا۔ اور ان کی تحریروں کے تراجم بھی شائع کیے۔ ہمیں سندھ کے اہم ترین ادیبوں کی صفِ اول کے دانشور، اور شاعر، شیخ ایاز سے انہوں ہی نے ملوایا۔ وہ ہمیں اپنا سارا کام چھوڑ کر شیخ ایاز کی دہلیز پر لے گئے، اور شیخ ایاز اپنی علالت کے باوجود ہم سے ملے اور شفقت کی۔ یہ صرف آصف فرخی ہی کا کمال تھا۔ اسی طرح انہوں ہی نے ہمارا تعارف سندھ کی ممتاز ادبی اور ثقافتی شخصیات، عطیہ دائود ، اور خدا بخش ابڑو سے بھی کروایا ، اور اب وہ ہمارے دُور کے ساتھی ہیں ۔
جہاں تک ادبی تعلقات کاسلسلہ ہے ہمیں حارثؔ خلیق اور کتنے ہی عمدہ لوگوں سے انہوں ہی نے ملوایا۔ ہم وہ شام کبھی بھی نہیں بھول سکتے جب آصف فرخی ہی کے ایما پر فاطمہ حسن نے اپنے گھر پر ہماری خاطر ایک ادبی محفل منعقد کی جس میں ، مشتاق یوسفی، مشفق خواجہ، محبوب خزاں، جون ایلیا ، ضمیر الدین احمد ، رسا چغتائی اور کئی اہم شخصیات شامل تھیں۔اہم بات یہ بھی ہے کہ ہمارے والد کے ان سب سے تعلقات تھے۔ لیکن ہم پردیس میں رہنے کی بنا پر ان سے ملنے سے محروم تھے۔ یوں ہمارے ربط کی تجدید ہوئی۔ اس تقریب کا اعزاز یہ بھی تھا کہ وہاں جون ایلیا نے ہمار ا بحیثیت شاعر تعارف کرویا، اور بعد میں ہم سے کہا کہ،’ میاں یہ تمہاری ، ’مہورت ‘ تھی‘۔ یہ تقریب آصف فرخی ہی کی مہربانی سے ہو سکی۔
آصف فرخی اور کراچی کی یادوں میں وہ شام بھی ہے کہ جب آصف فرخی ، اپنے والد کے ساتھ ، ہمیں ممتاز صوفی بابا ذہین شاہ تاجی کے عرس میں لے گئے تھے۔ تقریب افتخار عدنی صاحب کی رہائش گاہ پر تھی۔ وہاں قوالی کے دوران آصف فرخی نے ہمار ا ہاتھ پکڑ کر ہمارے ساتھ نذر پیش کی۔ احباب شاید واقف ہوں کہ ڈاکٹر اسلم فرخی خود، خواجہ نظام الد ین اولیا ، سلطان جی کے مرید اور معتقد ہیں۔ اب بھی ہم جس صوفی مجلس میں شریک ہوپاتے ہیں، ہمیں ہمیشہ آصف فرخی کے ساتھ کی وہ ساعت یاد آتی ہے۔
کینیڈا کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جب ممتاز شاعر ، عرفان ستار ، پہلی بار کینیڈا ،آئے تو ان کا تعارف بھی آصف فرخی ہی نے پاکستان سے ہی کروایا تھا ،ا ن کی خواہش تھی کہ ان کی کما حقہ پذیرائی کی جائے۔ اس موقع پر عرفان ستارؔ کینیڈا کے کئی اردو ادیبو ں اور اہم شخصیات سے ملے۔ اس تقریب کا تحفہ عرفان ستار کی پہلی کتاب ، تکرارِ ساعت، آج بھی کئی دوستوں کے پاس ہے۔ میں جب بھی اس کتاب کو دیکھتا ہوں، آصف فرخی نظر میں آتے ہیں۔
انتظار حسین کے آخری سالوں میں آصف فرخی ان کے بہت قریب تھے۔ اس قربت میں انتظار حسین اور شمس الرحمان فاروقی کے نظریاتی اثرات ان پر پڑے اور انہوں نے خاموشی کے ساتھ سالہا سال پاکستانی اردو ادب کا رخ ترقی پسند تحریک سے ہٹا کر ادب برائے ادب کے نظریہ کی جانب موڑا۔ باوجودیکہ انکے چچا ثقہ ترقی پسند تھے۔ یہ ایک طویل بحث ہے لیکن ان کو یاد کرتے وقت اسے یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔
اردو ادب کی ترویج اور ابلاغ میں آصف فرخی کی کاوشوں اور خلوص کی کئی جہتیں ہیں ۔ اس کی ایک مثال ان کا اردو کے اہم اور ممتاز لیکن گوشہ نشین شاعر ، احمد مشتاقؔ، سے ربط ہے۔احمد مشتاق ؔ ناصر کاظمی کے اہم ہم عصر شاعر ہیں۔ ایک بار کامران اصدر علی کی دعوت پر آصف فرخی ہیوسٹن آئے۔ ہم ان سے ملنے کے شوق میں نسرین کے ساتھ آسٹن گئے۔ وہاں ہماری ملاقات احمد مشتاق سے ، آصف فرخی اور ان کے میزبان محمد ظفر کے توسط ہی سے ہوئی۔ ہمارے علم میں ہے کہ پاکستان کے ممتاز ادیب ، خوجہ رضی حیدرؔ احمد مشتاق پر ایک اہم کتاب مرتب کر رہے ہیں۔ یہ کتاب پاکستان کے ادب اور ادیبوں کی ضرورت ہے۔ خواجہ رضی حیدر نے احباب کو بتایا ہے کہ اس ضمن میں آصف فرخی نے ان کی بہت مدد کی ہے۔ اور اس حوالے کی گم شدہ اور منتشر نگارشات، ورق ورق جمع کرکے آصف فرخی نے خواجہ رضی حیدر تک پہنچائی ہیں۔ احمد مشتاق کی بازیافت اور ادب دوستوں سے مکرر تعارف، خواجہ صاحب کا بڑا کام ہوگا ،۔اس میں آصف فرخی کی شرکت اس کو اور جامع بنانے میں مدد گار ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستانی ادب کی گزشتہ کئی دہایئوں پر آصف فرخی کا اثر اور چھاپ گہری ہے۔ اتنی کم عمر میں یہ اعزاز حاصل کرنا صرف اور صرف سخت محنت اور استقلالِ عزم سے حاصل ہوتا ہے۔ ابھی ان کے کئی کام باقی ہیں۔ مثئلاً ہمیں عرفان ستار نے بتایا کہ آصف فرخی ان سے رابطے میں تھے تاکہ حبیب یونیورسٹی میں اردو ادب کی تدریس میں عرفان ستارؔ ان سے تعاون کریں ، اور بالخصوص اعلیٰ اردو شاعر ی کے بارے میں طلبا کو خصوصی درس دیں۔ اس طرح سے ان کے کئی اور منصوبے بھی ہوں گے جو تکمیل طلب ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت آصف فرخی کی طرح کا کوئی ادیب ہمارے سامنے نہیں ہے جو دور رس فکر رکھتا ہو۔ ہمیں بار بار غالب کا ایک شعر ذرا سی تحریف سے یاد آرہا ہے:۔
ہاں اے فلکِ پیر جواں تھا ابھی آصف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور