بیرسٹرحمید باشانی
سیاسی ومعاشی پنڈتوں کا خیال ہے کہ تیس سال بعد کی دنیا ہماری آج کی دنیا سے یکسرمختلف ہوگی۔ یہ ماہرین ایک کثیرالقوامی کنسلٹنگ فرم کی ایک رپورٹ سےاتفاق کرتے ہیں کہ 2050 میں چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہوگی۔ بھارت دوسرے نمبر پرآجائے گا، اورامریکہ تیسرے نمبرپرچلا جائے گا۔ مگردلی ہنوزدوراست۔
سنہ2050 میں ابھی پورے تیس سال باقی ہیں۔ اس طویل عرصے میں دنیا کوئی نئی کروٹ لے سکتی ہے۔ کوِئی حادثہ کوئی واقعہ تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے۔ سپینش فلویا کورونا وائرس جیسی کوئی آفت حالات و واقعات کا رخ موڑ سکتی ہے۔ مگراگررجائیت پسندی پراصرارکیا جائے اوریہ مان لیا جائے کہ نشیب وفراز کے باوجود یہ دونوں معشیتیں دنیا میں پہلے اور دوسرے درجے پرفائز ہو جائیں گی تو یہ غریب لوگوں کے لیے ایک بڑی خوشخبری ہے کہ دنیا کےغریبوں کا ایک بہت بڑا حصہ اس خطے میں آباد ہے۔
امید پردنیا قائم ہے۔ امید کے سہارے انسان نے ہزاروں برس کی غربت اور بے چارگی سہی۔ بھوک وننگ برداشت کی۔ چند برس اوریوں ہی سہی۔ خوش امیدی لازم ہے۔ مگراس وقت یہ ہے کہ چودہ ہزارفٹ کی بلندی پران دوملکوں کے سپاہی باہم دست وگریبان ہیں۔ دست وگریبان کی ترکیب ان کے حسب حال ہےکہ دونوں طرف پیشہ ورسپاہی ہیں، مگرہتھیاروں کے بجائے دست وبازو آزما رہے رہے ہیں، اوردست بدست لڑائی میں مصروف ہیں۔
اگر ہماری دنیا مثالی ہوتی تواس سال چین اورہندوستان باہمی تعلقات کے قیام کے سترسال پورے ہونے کی خوشی میں جشن منا رہے ہوتے۔ سرحدوں پرایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے، مکوں اورلاتوں کے بجائے مٹھائی اورپھولوں کا تبادلہ ہورہا ہوتا، مگرظاہرہے ہماری دنیا ابھی مثالی نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس میں بہت ساری ناہمواریاں اوربدصورتیاں ہیں۔ اس گلشن میں ابھی پھول کم کھلتے ہیں، اورخارزیادہ اگتے ہیں۔
سنہ 1950 کےانقلاب کے بعد تائیوان کو نظر انداز کر کہ عوامی جمہوریہ چین کوجن ممالک نے چین کی نمائندہ حکومت تسلیم کرنے میں پہل کی ان میں بھارت بھی تھا۔ سرحدوں پراختلافات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا آغازمعمول سے کچھ زیادہ گرمجوشی سے ہوا۔ دونوں ملکوں کے پاس اس وقت جو لیڈرشپ تھی، وہ قد کاٹھ کےاعتبار سےعالمی سطح کے رہنما تھے۔ وہ بڑے لوگ تھے، جو خود بھی بڑے خواب دیکھ سکتے تھے، اوراپنی قوم کو بھی بڑے خواب دیکھا سکتے تھے۔
ایک طرف چئیرمین ماو تھا، اور دوسری طرف پنڈت جواہرلال نہرو۔ سوشلزم پریقین رکھنے کے باوجود دونوں کا سوشلزم کا ماڈل اورنظریہ مختلف تھا۔ دونوں مثالیت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ بے حدعملیت پسند تھے۔ دونوں کے درمیان تعلقات کا آغاز بڑی گرم جوشی سے ہوا۔ ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ اس گرم جوشی کا آغاز تھا۔ دونوں کے درمیان تعلقات کے لیے باقاعدہ نظریاتی اوراصولی بنیادوں کا تعین کیا گیا۔ یہ تعلقات “پنج شیل” پرقائم ہوئے۔
یہ لفظ سنسکرت زبان سے لیا گیا، جس کا مطلب پانچ اصول ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے یہ پانچ اصول بنیاد قرار پائے۔ ان اصولوں کو بنیاد بنا کر اٹھائیس اپریل 1954 میں پیکنگ میں باقاعدہ معا ہدے پردستخط ہوئے۔ ان پانچ اصولوں میں پہلااصول یہ تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اورخودمختاری کا احترام کریں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف جارحیت نہیں کی جائے گی، ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی، باہمی مفادات کا خیال رکھا جائے گا، اورپرامن بقائے باہمی کا اصول اپنایا جائے گا۔
اگر غورسے دیکھا جائے تو یہ پانچ اصول پوری انسانی تاریخ کے مشترکہ تجربات کا نچوڑ تھے۔ اگرعملی طورپرکسی بھی دورمیں ان اصولوں پرعمل کیا جائے تو تنازعات کا شکارملکوں اورقوموں کےدرمیان انتہائی خوشگواراورمثالی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں۔ لیکن عملی دنیا میں ملکوں اور قوموں کے تعلقات کے باب میں صرف اصول ہی نہیں بیک وقت کئی دوسرےعوامل کر فرما ہوتے ہیں۔ کئی مقامی اورعالمی مفادات اورتضادات ہوتے ہیں، جوان اصولوں سےمتصادم ہوتے ہیں۔ چنانچہ چین اوربھارت بھی انسانی تاریخ کے بہترین اصولوں کو کاغذوں پر تسلیم کرنے کے باوجود باہمی سرحدی تنازعے حل نہ کر سکے۔ اور صرف آٹھ سال کے مختصرعرصے میں پنج شیل معاہدے اوراصولوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے میدان جنگ میں کود پڑے۔
یہ مختصرمگرخونی جنگ چین جیت گیا، بھارت ہارگیا، مگر جیسا کہ ہم جانتے ہیں جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی، بلکہ یہ کئی نئے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔ ان سرحدی تنازعوں کولے کر ایک بڑی جنگ کےعلاوہ وقتا فوقتا دونوں کے درمیان سرحدی کشیدگی اورچھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہیں۔ ان میں 1967، 1987 کی جھڑپیں قابل ذکر ہیں۔ جنگ اور جھڑپوں کے باوجود حیرت انگیزطور پردونوں ممالک نےایک دوسرے کےساتھ تجارت کے لیے بھی اہم اقدامات اورپیشرفت کی۔ یہ تجارتی تعلقات اس حد تک بڑھے کے دوہزارآٹھ تک چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت داربن گیا۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں اس میں تبدیلی آئی ہے، اور چین کی جگہ امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن کر ابھرا ہے۔ حالیہ دو برسوں کے دوران دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اب سرحدوں پرموجودہ کشیدگی کے نتیجے میں اس تجارت کے حجم میں مذید کمی کےامکانات ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ سرحدی تنازعہ اروناچل پردیش سمیت زمین کے کئی چھوٹے موٹےٹکڑوں پرہے، لیکن یہاں ہمارا موضوع اکسائی چن ہے۔ تاریخی طور پراکسائی چن سابقہ ریاست جموں کشمیرکا حصہ رہا ہے۔ یہ سیتیس ہزارمربع میل علاقہ ہے، جو سطح سمندر سے چودہ ہزار سے بائیس ہزارفٹ کی بلندی پرواقع ہے۔
اس علاقے کو1834میں سکھ حکمرانوں نے سکھ سلطنت میں شامل کیا تھا۔ 1846 میں انگریزوں کے ہاتھوں سکھوں کی شکست کے بعد اکسائی چن انگریزوں کے پاس چلا گیا، جو بعد میں مہاراجہ گلاب سنگھ کو منتقل ہوا۔ 1865 میں سروے آف انڈیا میں انگریزسول سرونٹ ڈبلیوایچ جانسن نے ان علاقوں کو ریاست جموں وکشمیرمیں دیکھایا۔ اس وقت مہاراجہ کشمیر نے یہاں ایک قلعہ تعمیرکیا، اورکچھ فوجی دستے بھی تعینات کیے۔ چینی حکومت نے سرکاری سطح پرجونقشہ شائع کیا تھا، اس میں اکسائی چن کی سرحد جانسن لائن ہی دکھائی گئی۔ اس سے پہلےپیکنگ یونیورسٹی نے بھی جونقشہ شائع کیا تھا، اس میں اکسائی چن کوریاست جموں کشمیر میں دکھایا گیا۔
بر صغیر کی تقسیم اورریاست جموں کشمیر کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد یہ علاقے خصوصی طورپرافرا تفری کا شکار ہو گئے۔ تقسیم سےقبل ہی متحدہ ہندوستان اورچین کے درمیان سرحدوں کا کوئی باقاعدہ تعین نہیں تھا۔تقسیم کےبعد یہ صورت حال برقرار رہی۔ تقسیم کشمیراور ریاست پرمہاراجہ کی عملداری ختم ہونے کے بعد اکسائی چن کے دشوارگزارپہاڑوں کی رکھوالی کے لیے کوئی متبادل انتظام نہیں کیا گیا۔آزادی کے بعد شروع شروع چین، انڈیا اورپاکستان میں اس بات پرخاموش اتفاق تھا کہ ان علاقوں کی سرحدوں کا مستقل تعین ابھی باقی ہے۔
سنہ 1950 کے لگ بھگ چین نے مغربی تبت اورزنجیانگ کو جوڑنے کے لیے بارہ سوکلومیٹرسڑک تعمیرکی جواکسائی چن سے گزرتی ہے۔ بھارت کوتقریبا آٹھ سال بعد اس وقت اس سڑک کے بارے میں پتہ چلا جب خودچین نے یہ سڑک اپنے نئے نقشے میں دکھا ئے۔ اس پرپنڈت نہرو نے چین کو خط لکھا کہ اکسائی چن لداخ کا حصہ ہے، جواب میں چو این لائی کا دوٹوک موقف تھا کہ اکسائی چن چین کا حصہ ہے، جس پر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ آگے چل کراگرچہ نہرواورچواین لائی کے درمیان مذکرات کے ذریعےاس تنازعے کا حل تلاشنے پر اتفاق ہوا، لیکن اس پرکوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی۔
یہ تنازعہ ابھی تک موجود ہے، اورموجودہ کشیدگی کی گونا گوں وجوہات میں سے ایک نمایاں وجہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان اورچین نے1963 میں سرحدی تنازعوں کےحل کا جومعاہدہ کیا، اس کےتحت کچھ علاقے پاکستان کے پاس آئے اورکچھ چین کو دیے گئے۔ اس معاہدے میں چین نے یہ تسلیم کیا کہ مسئلہ کشمیرحل ہونے کی صورت میں ان علاقوں کی حق ملکیت اورمستقبل پرازسرنوبات چیت کی جائے گی۔
اس وقت صورت یہ ہے کہ 2050میں دنیا کی معاشی طاقتیں بننے کا خواب دیکھنے والی یہ دوقوتیں اکسائی چن کی ملکیت پرایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں، جوبنیادی طورپرریاست جموں کشمیرکا حصہ ہے، اورجس کی حق ملکیت اورحق حاکمیت صرف ان علاقے کےعوام کوحاصل ہے۔
♦