میں نے اپنے آپ سے دوستی کیسے کی؟

حبیب  شیخ

جب میں نے اپنے ادیب دوست  خالد سہیل کو اپنا نیا افسانہ  شرمیلی کی روح  شرمیلی کا جسم پر تیری مرضی”  ان کی نظر ثانی اور رائے کے لئے  ای میل کے ذریعے بھیجا تو  ایک یا دو دنوں کے بعد ان کا فون آیا۔  سلام  و آداب کے بعد میر ے افسانے کے بارے میں گفتگو ہوئی اور اس کے بعد  انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں  وبا کے دنوں میں پابندیوں کی وجہ سی خود کو تنہائی کا شکار تو نہیں محسوس کرتا۔

میں نے ان کو جواب دیا کہ  میں گھر میں بالکل تنہا تَو نہیں ہوں کیونکہ میں  ایک عدد بیوی کے ساتھ رہتا ہوں۔  گو کہ میں اپنے بچوں اور دوستوں سے ملاقاتوں کو  بہت  یاد کرتا ہوں لیکن تنہائی کا شکا ر نہیں ہوں۔  خالد سہیل نے  اِس بات چیت کے دوران ایک فکر انگیز جملہ کہا   تنہا اور تنہائی کا احساس ایک برا امتزاج ہے۔

  خالد سہیل چونکہ ایک ماہرِ نفسیات  بھی ہیں تَو ان کو تجسس ہؤا کہ  میں تنہائی  کے احساس  سے کیسے بچا ہؤا ہوں جب کہ عوام الناس اور خصوصی طور پر اُن کے کئی مریض  شدید  تنہائی اور بوریت کا شکار ہیں۔  انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اس بارے میں ایک مضمون درج کروں جس کا عنوان ہو کہ میں نے اپنے آپ سے دوستی کر لی ہے۔  یہ مضمون آپ کی دلچسپی اور تنقید کے لئے حاضر ہے۔ 

عام طور پر ایک شخص کی  ذہنی حالت میں حالات کا اتنا دخل نہیں  ہوتا  جتنا کہ اُس کے خیالات کا۔  میں منفی خیالات سے بچنے کے لئے کئی طریقوں پر کار بند ہوں  جو درجِ ذیل ہیں۔

۔1۔   میرا کچھ وقت لکھنے پڑنے میں گزر جاتا ہے۔  اردو میں کہانیاں اور بلاگ لکھنا میرا جنونی شوق  ہے  اور اس تخلیقی عمل کی وجہ سے  میں انجانی خوشی  سے سرشار  ہوتا ہوں۔  ایک لکھاری کا مطالعہ سے کم و بیش  اتنا ہی  مضبوط رشتہ  ہوتا  ہے جتنا اس کا اپنے قلم سے۔  اسی لئے میں نے کتابوں سے گہری دوستی گاڑھ  رکھی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ویب سائٹس پر جا کر مطالعہ کرتا ہوں  جن میں  درجِ ذیل  مجھے بہت پسند ہیں:۔

humsub.com.pk

mukaalma.com

nyazamana.com

aljazeera.com

counterpunch.org

dawn.com

۔2۔  میں  اپنے ماضی کی گٹھڑی کو  پھینک کر اپنا بوجھ ہلکا کر چکا ہوں اور مستقبل کے لئے میں نے  غیر مزاحمت  کا اصول اپنا لیا ہے  یعنی میں ایسے واقعات کے رونما ہونے کے خدشے سے پریشان نہیں رہتا جو میرے بس میں نہیں ہیں۔  ماضی کے پچھتاووں  اور مستقبل  کے خطرات  میں غوطے لگانے کے بجائے میں خود کو شعوری طور پر لمحہ حال میں رکھتا ہوں کیونکہ یہی لمحہ ایک  حقیقت ہے  اور اس  لمحہ حاضر میں رہ کر خود کو خدا،  قدرت اور کائنات سے منسلک کرکے دائمی سکون اور خوشی    پاتا ہوں۔

۔3۔  اس کا علاوہ دن  کا کچھ حصہ  بیوی کے ساتھ بات چیت کرنے  بشمول اس کی شکایات  سننے،  بچّوں اور دوسرے عزیز و اقارب سے فون پر بات چیت،  موسیقی  اور  صوفائے کرام کے کلام اور انقلابی شعرا کےکلام کو سننا،   کچھ رضاکارانہ کام جو آج کل انٹرنیٹ اور فون  تک محدود ہے،  پارک میں پیدل سیر کے لئے جانا اگر ہوا کے تھپیڑے نہ  پڑ رہے ہوں یا  پھر گھر ہی  میں  یو ٹیوب کے ایک ویڈیو کے ساتھ  جسمانی ورزش کر لینا،  اور گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں گزر جاتا ہے۔

  غرض کہ  میں خود کو مصروف رکھتا  ہوں اسی لئے بور ہونے کے  لئے  میرے پاس کوئی وقت نہیں بچتا۔  مزید یہ کہ انجانی خوشی اور اطمیناں کی وساطت سے میں خوش اور پرسکون رہتا ہوں۔  چونکہ  ان دونوں کیفییات کو اپنانے کے لئے کسی  خارجی محرّکات کی ضرورت نہیں ہے اسی لئے میری خوشی اور سکون کا انحصار بیرونی سہاروں  پر نہیں ہے۔ خالد سہیل کا ایک شعر ہے    ؎۔

عجب سکون ہے میں جس فضا  میں رہتا ہوں

میں اپنی ذات کے  غارِحرا  میں  رہتا ہوں

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں  اس کرّہ ارض کی تاریکیوں اور ظلم و ستم سے  بے پرواہ ایک خود غرض انسان ہوں۔  اس کے برعکس میں    ایک  ایسی عالمی تنظیم سے منسلک ہوں  جو دنیا کہ ہر گوشے میں جبر  و ستم کے واقعات پر تحقیق کرتی ہے اور اس کے تدارک کے لئے مہم چلاتی ہے۔  اس کے علاوہ  میں اپنے قلم سے کاغذ کا  سینہ چاک کر کے کہانیوں اور بلاگ کے ذریعے ظلم  و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کا فرض ادا کرتا ہوں۔  اقبال  کا ایک شعر یاد آ گیا  ؎۔

خُدا تُجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

یہ ہیں وہ  رموز و اسرار جن کی وجہ سے  میں تنہائی سے نہیں گھبراتا  یعنی  میں نے اپنے آپ سے دوستی کرلی  ہے۔  میں اس کیفیت تک پہنچنے کے لئے  لکھنے کا جنوں،  صوفیائے کرام کی شاعری،  سادھ گرو کے یو ٹیوب پر لکچر، اور خالد سہیل اور ایکھرٹ ٹولے کی تحریروں کا  مرہونِ منت ہوں۔

حوالہ جات

* The Art of Living in Your Green Zone by Khalid Sohail, Hushion House, 2003

*A New Earth – Awakening to Your Life’s Purpose by Eckhart Tolle,  

Penguin Books, 2008

ایک شام جب دانائی کی سہیلیوں سے ملاقات ہوئی *

by Khalid Sohail,

www.humsub.com.pk/289314/khalid-sohail-267

 2019

Comments are closed.