بھارتی حکومت نے تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے بیرونی ممالک کے ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد کے بھارت میں داخلے پر آئندہ دسبرس کے لیے پابندی لگا دی ہے۔
بھارتی حکومت نے تبلیغی جماعت کے غیر ملکی اراکین پر ویزا ضابطوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے ان پر بھارت میں داخلے کے لیے دس برس کی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لیکن تبلیغی جماعت سے وابستہ قانونی ماہرین نے بیرونی ممالک کے تبلیغی جماعت کے اراکین پر ویزا کے غلط استعمال کے حکومت کے الزام کو بے بنیاد بتاتے ہوئے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرونی ممالک سے بھارت میں بیشتر مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے لوگ سیاحتی ویزے پر ہی آتے ہیں اور اس سلسلے میں موجودہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ تفریق برت رہی ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ نے بیرونی ممالک سے بھارت آنے والے ان افراد کے پاسپورٹ کو بلیک لسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جنہوں نے بھارت میں آکر تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا۔ بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ ایسے افراد سیاحت کے ویزا پر بھارت آئے تھے اور اس کے تحت مذہب کی تبلیغی سرگرمیوں میں ان کی شرکت غیر قانونی ہے۔
وزارت داخلہ نے ایسے دو ہزار 550 افراد کی فہرست تیار کی تھی، جو اس کے بقول، کورونا وائرس وبا کے لاک ڈاؤن کے دوران بھارت میں تھے اور ایک اہم فیصلے کے تحت انہیں بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے۔ اس میں انڈونیشیا، ملائیشیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت دنیا کے تقریبا 47 ممالک کے شہری شامل ہیں۔
بھارتی حکومت کا الزام ہے کہ جب تبلیغی مرکز میں کورونا وائرس کی وبا کا پتہ چلا تو ان میں سے بیشتر افراد مرکز میں موجود تھے۔ ان افراد نے پابندیوں اور بندشوں کا خیال نہیں رکھا اور ان کی نقل و حرکت بھی کورونا وائرس کے پھیلنے کا سبب بنی۔ لیکن ان پر پابندی کی اہم وجہ ویزا اصولوں کی خلاف ورزی بتایا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ جن افراد کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے وہ بھارت میں ٹورسٹ ویزا پر تھے اور انہیں کسی مذہبی پروگرام میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔
لیکن اس کیس میں تبلیغی جماعت کے وکیل مجیب الرحمان نے حکومت کی اس دلیل کو پوری طرح سے بے بنیاد بتایا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”امرناتھ یاترا میں شرکت ہو، کسی آشرم یا مٹھ کی زیارت کرنی ہو یا پھر امرتسر کے گرودوارے میں حاضری دینی ہو، سبھی ٹورسٹ ویزا پر ہی بھارت آتے ہیں۔ تو پھر اس کی اجازت کیوں ہے؟ کمبھ میلا کیا مذہبی زیارت نہیں ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ تبلیغی جماعت کے لوگ دوسروں میں اسلام کی تبلیغ کے لیے نہیں آتے بلکہ خود مسلمانوں کے درمیان اسلام کی تفہیم و تفسیر کے مقصد سے مساجد کا دورہ کرتے ہیں۔ ان کا دائرہ مسلم کمیونٹی تک محدود ہوتا ہے اور وہ اسی دائرے میں اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مجیب الرحمان کا کہنا ہے کہ بھارت میں ویزا کے اصول بھی مذہبی تفریق کی بنیاد پر ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مسلم ویزے کی میعاد سے زیادہ وقت بھارت میں رک جائے تو مسلمان ہونے کی وجہ سے قانونا ًاس پر جرمانے کی بڑی رقم ہے عائد ہوتی ہے لیکن اگر ہندو یا کوئی دوسرے مذہب کا ہے تو بہت معمولی رقم ہے۔ ”حکومت کے ان غیر امتیازی رویوں اور اصول و ضوابط کو عدالت میں چیلنچ کیا جائیگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چونکہ عدالتیں بھی اب آزاد نہیں ہیں اور ان کا رویہ بھی امتیازی سلوک پر مبنی ہے اس لیے اس وقت نہیں بلکہ مناسب وقت پر اسے چیلنج کیا جائیگا۔ انہوں نے اس کی کئی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا،”عدالتوں پر بہت دباؤ ہے، وہ مکمل طور پر آزاد نہیں ہیں اور وقت کی نزاکت دیکھ کر وہ بھی حکومت کی چاپلوسی پر اتر آئی ہیں۔ اس لیے ابھی نہیں انہیں مناسب وقت پر چیلنج کیا جائے گا”۔
گزشتہ مارچ کے اواخر میں بھارت میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی کہ دہلی کے نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کا عالمی مرکز کورونا وائرس پھیلانے کا بھی اہم مرکز ہے اور اس حوالے سے اس پر شدید نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔ بھارتی میڈیا اس تعلق سے مسلمانوں خاص طور پر تبلیغی جماعت کے مرکز کو بری طرح سے نشانہ بناتا رہا۔ تاہم کئی حلقے اس کے لیے مقامی انتظامیہ کو بھی ذمہ دار مانتے ہیں۔
نظام الدین میں دہلی پولس کے تھانے کی دیوار تبلیغی جماعت کے مرکز کی دیوار سے ملتی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا سے قبل تک اس مرکز میں عموما ًدو ہزار سے زیادہ افراد ہمیشہ رہتے رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اچانک جب لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو اس وقت بھی وہاں تقریباً ڈھائی ہزار افراد مقیم تھے اور پولیس اس صورتحال سے اچھی طرح باخبر تھی۔
لاک ڈاؤن کے سبب نقل و حمل کے تمام ذرائع اچانک بند کر دیے گئے اور مرکز میں موجود لوگوں کی تمام گزارشات کے باوجود انتظامیہ نے ان کی کوئی مدد نہیں کی اور ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ مرکز میں ہی رہیں۔ لیکن حکومت اور بھارتی میڈیا اس صورت حال کی تمام ذمہ داری تبلیغی جماعت پر ڈال دی۔
DW.com
♦