لیاقت علی
سرائیکی قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ دو جون 1818 کو رنجیت سنگھ نے ملتان کی سرائیکی عوام کے قتل عام اور فتح کے نتیجہ میں سرائیکی دھرتی مشرقی پنجاب میں شامل کی جو اس وقت موجودہ پنجاب کا ستر فیصد سے کہیں زیادہ رقبے کے لحاظ سے بنتا ہے ۔ پھر پنجاب کے مسلمان پنجابیوں نے پنجاب کی تقسیم کا نعرہ مارا۔
سرائیکی قوم پرست دو جون کو یوم سیاہ کے طور پر منانا چاہتے ہیں ہیں تو پنجابی قوم پرست آج یوم نجات کی نوید سنارہے ہیں۔ فریقین کی پوسٹیں پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہےکہ دونوں تاریخ کی بجائے جذبات اورمفروضوں کا سہارا لے رہے ہیں۔دونوں فریق انیسویں صدی کے حکمرانوں ،ان کی حکومتوں،ان کی مزاحمت اورحملوں کو اکیسویں صدی کے تناظر میں پیش کررہے ہیں۔
رنجیت سنگھ بلا شبہ پنجابی تھا لیکن اس کے دورمیں پنجابی ہونے کا تصورقطعاً وہ نہیں تھا جو آج سمجھا جاتا ہے۔قومی شناخت کولونیل عہد میں پیدا ہوئی۔موجودہ صوبوں کی شکل و صورت بھی ابتدائی طورپرایسٹ انڈیا کمپنی کی دین تھی جس میں بعد ازاں برطانوی سرکارنے اپنی انتطامی ضرورتوں کے تحت ردوبدل کیا تھا۔
رنجیت سنگھ نےکبھی خود کو پنجابی حکمران نہیں کہا تھا اورنہ ہی اس کے ذہن میں پنجابیت کا وہ تصور موجود تھا جس کے پنجابی قوم پرست آج کل گرویدہ ہیں۔ وہ تو اپنی حکومت کو لاہوردرباریا خالصہ سرکار کہتا تھا اس نے کبھی پنجابی دربارکانام اپنی حکومت کے لئے استعمال نہیں کیا تھا۔
رنجیت سنگھ اپنی سلطنت کو وسعت دیتے ہوئے مذہب کو قطعا پیش نظر نہیں رکھاتھا۔ وہ سکھ سرداروں کے خلاف بھی اسی طرح فوج کشی کرتا تھا جس طرح کہ مسلمانوں حکمرانوں کے خلاف۔ وہ مزاحمت کرنے والے ہرحکمران کے خلاف لڑتا خواہ وہ سکھ ہوتا یا مسلمان۔ اس نے تو اپنی ساس سدا کور کو بھی نہیں بخشا تھا۔ بہت سی شخصی خوبیوں کا حامل رنجیت سنگھ فیوڈل حکمران تھا اس کے اندازحکمرانی اوراس کے اخلاقی میعاروں کو آج کے عہد کے پیمانوں کے حوالے سے جانچنا اورحکم لگانامعروضیت سے زیادہ موضوعی طرزعمل ہے۔
رنجیت سنگھ کی سرکارکے ریونیو کا انحصار دیگر فیوڈل ریاستوں کی طرح کسانوں کے زیادہ سےزیادہ استحصال اورہمسایہ سرداروں اورراجواڑوں کو لوٹنےپرتھا۔ وہ کوئی پنجابی فلاحی ریاست قائم کرنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس عہد میں ایسا ہونا ناممکن تھا۔ لوٹ ہی اس عہد کا نشان تھا اور رنجیت سنگھ کا بھی یہی نشان تھا۔
رنجیت سنگھ کے دور میں بھی پنجاب دو حصوں میں منقسم تھا اس وقت بھی تین چوتھائی پنجاب رنجیت سنگھ کی سلطنت کا حصہ تھا جب کہ ایک چوتھائی ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر تسلط تھا۔مشرقی پنجاب کی وہ ریاستیں جنھیں پھلکیاں سٹیٹس کہا جاتا تھا رنجیت سنگھ کی حکمرانی کے تابع نہیں تھیں بلکہ وہ انگریزوں کے ساتھ مل کر رنجیت سنگھ کے خلاف سازشیں کرتی تھیں۔ جب مارچ 1849 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے لاہور دربار پر قبضہ کیا تو وہ تمام علاقہ جس میں سارا موجودہ پنجاب، خیبر پختون خواہ شامل ہے پنجاب قرار پایا تھا۔
روس اور برطانیہ کے مابین جاری گریٹ گیم کے پیش نظر وایسرائے لارڈ کرزن نے فارورڈ پالیسی کے تحت ایک دن پنجاب کے سات اضلاع کو علیحدہ کرکے شمال مغربی سرحدی صوبہ بنادیا۔ اس صوبے کے قیام کا کسی پختون نے نہ مطالبہ کیا تھا اور نہ کسی پنجابی نے یہ کہا تھا کہ پنجاب تقسیم کو کسی قیمت پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔
اس طرح 1947 میں مغربی پنجاب کی اسمبلی کے ارکان نے اکثریت سے پنجاب کو متحد رکھنے کی قراردادپاس کی تھی جب کہ مشرقی پنجاب کے ہندو اور سکھ ارکان اسمبلی نے پنجاب کو تقسیم کرنے کی قرار داد پاس کی تھی۔ پنجاب کی تقسیم میں عوام کا کبھی کوئی رول نہیں رہا۔
پنجاب ماضی میں جب بھی تقسیم ہوا یہ حکمرانوں کی حکمت عملی کے نتیجے میں تقسیم ہوا اور مستقبل میں بھی اگر سرائیکی صوبہ بنا تو وہ حکمرانوں کی خواہشات اور حکمت عملی کے تحت ہی بنے گا عوام کی خواہش اور امنگ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوگا۔
اب تھوڑا ذکرنواب مظفر خان کو ہوجائے۔ نواب مظفرخان بھی ایک صوبے دار تھا جس کامقصد حیات اپنے اوراپنے اولاد کے اقتدار کے سوا کچھ نہ تھا۔ کیا اسے کسی بھی حوالے سے سرائیکی قراردیا جاسکتا ہے؟ کیا وہ سرائیکی بولتا تھا؟ کیا وہ سرائیکی سماجی اورثقافتی خصائل کا حامل تھا؟ کیا اس نے کبھی خود کو یا اپنی حکومت کو سرائیکیوں کی حکومت قرار دیا تھا بالکل بھی نہیں۔
کیونکہ یہ تصورات اس کے عہد میں موجود ہی نہیں تھے۔ وہ بھی روایتی فیوڈل صوبے دار تھا اور رنجیت سنگھ اور نواب مظفر خان کے مابین لڑائی دونوں قوموں کے مابین نہیں دو فیوڈل حکمرانوں کے مابین تھی۔ کسی ایک کو حق پر قرار دے کر دوسرے کی مذمت کرنا سراسر جذباتیت ہے۔تاریخ سے اس کو کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
قوم پرستی صنعتی دور کی پیداوار ہے فیوڈل عہد میں ایسا کوئی سیاسی مظہر نہیں پایا جاتا تھا۔
♥