تحریر: شنکر رے کلکتہ
انگریزی سے ترجمہ : خالد محمود
ہر معلوم کی ان کہی داستان میں ایک لازمی اہمیت ہوتی ہے۔اور معلومات کا ہر ٹکڑاغیر معلوم کے لئے ایک ہدایت نامہ ہے جو الجبرے کے لامحدود کی طرح ہے۔شام میں پیدا ہونے والے سوئس ڈاکٹر ’’ تمّام العودات ‘‘ سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے جن کا خیال ہے کہ ہمیں کرونا وائرس کی عوامی تاریخ مرتّب کی ضرورت ہے ۔اس مقصد کے لئے انہوں نے فیس بُک پر اسی نام سے ایک پیج بنایا ہے جس کے ایک ہزار سے زائد ممبران ہیں۔العودات کو ڈاکٹرزوِدآئوٹ بارڈرز اور انٹرنیشنل ہلال احمر اور ریڈ کراس کے اندرونی کارکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔وہ مشکلات میں گھری ابھرتی قوموں میں کام کرنے کے عادی ہیں۔
بلٹین آف اٹامک سائنسٹسٹ کے مدیرڈَین ڈرولٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی عوامی تاریخ دنیا میں ہر شخص کے تجربے بالخصوص ایک غریب آدمی کے تجربے کی شاید عمومی مثال نہ ہو۔کیونکہ یہ لوگ فطری طور پر ڈیجیٹل دنیا سے بندھے ہوئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گروپ ایک متنوع گروپ ہے جس کا جھکائو ان امیر ممالک کی طرف ہے جو کمپیوٹر،سمارٹ فونز اور قابل اعتبار انٹرنیٹ رکھنے کے مالی طور پر متحمل ہو سکتے ہیں۔اس گروپ میں زیادہ تر لوگوں کے پاس پناہ گاہ ہے اور وہ کچھ عرصے کے لئے علیحدگی میں رہ سکتے ہیں۔لہذاٰ یہ یقینی طور پر ایسے لوگوں کے تجربات پر مشتمل ہے۔
زبانی تاریخی بیانیے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ کووِڈ۔19 پہلی وباء ہے جو سوشل میڈیا پرایک بڑے عالمی پیمانے پر دستاویزات بن رہی ہے جہاں قیمتی معلومات اور غلط معلومات بھی گڈمڈ ہو رہی ہیں۔سوشل میڈیا کے ایک محقق ریمنڈ سیراٹو نے کووِڈ۔19 پر دوسو آٹھ پبلک گروپس کا سراغ لگایا ہے جن کی پینسٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ پیروی کر رہے ہیں۔ان گروپس کی پوسٹ سیاسی سے انتہائی ذاتی رینج تک ہوتی ہیں۔
میساچوسیٹس، کی کیلی گروٹ نے ،لاک ڈائون کے دوران موثر احتجاج کو متحرک رکھنے کے لئے خیالات کی دعوت دی ہے۔علاحدگی اور سماجی دوری سے پیدا ہونے والی تنہائی کے توڑ کے لئے آرٹ ورکس،کارٹونز ،نغمات سے اور آن لائن گفتگو کا سہارا لیا ہے۔دوسرے لوگوں نے اپنے اپنے دُکھ،پریشانیوں ، خوف اور خوشیاں بھی آپس میں بانٹی ہیں۔
حیاتیاتی تنوع کے عالمی دن پچیس مئی کو’’ یونیسکو کورئیر ‘‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ،سسیپی اینز ،ھوموڈیوس اور اکیسویں صدی کے لئے اکیس اسباق کے مصنف اسرائیلی مورخ یوال نوح ھراری نے اس بحران کو ایک موقعے میں تبدیل کرنے کے بارے میں بات کی ہے۔اس بحران کے دوران کچھ سماجی دوری ناگزیر ہے۔یہ وائرس ہماری بہترین انسانی جبلتوں کا استحصال کر کے پھیلتا ہے۔ہم سماجی جانور ہیں۔ہمیں مشکل وقتوں میں رابطہ پسند ہے۔جب ہمارے رشتہ دار،دوست اور پڑوسی بیمار پڑتے ہیں تو ہماری ہمدردی جاگ اٹھتی ہے اور ہم آ کران کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔یہ وائرس اسے ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے۔اور یہ اسی طرح سے پھیل رہا ہے۔لہذا ہمیں دل کی بجائے دماغ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔مشکلات کے باوجود ہمیں رابطوں کو کم سے کم کرنا چاہئیے۔اگرچہ یہ وائرس جینیاتی معلومات کا ایک بے دماغ ٹکڑا ہے لیکن ہم انسانوں کے پاس دماغ ہے ہم اس درپیش صورت حال کا عقلی تجزیہ کر سکتے ہیں۔ہم اپنے رویوں کو بدلنے پر قادر ہیں۔
لاک ڈاؤن کے اندر رہنا ہے یا نہیں؟ اس شکستہ حقیقت کو دیکھتے ہوئے عوامی تاریخ بالخصوص ان کروڑوں انسانوں پر لکھنے کی ضرورت ہے جنہیں بظاہر علم اصلاح نوعِ انسانی کے تجربے میں ڈال دیا گیا ہے۔خوش قسمتی میں ہمارے پاس ایک نمونہ ہے جسے العودات نے بھی سختی سے تجویز کیا تھا: بیلاروس میں جنم لینے والی سوِت لانا الیکسی وچ کا ادبی کام جس پر انہیں 2015 کا ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ان کی کتب میں جنگ کا غیر نسوانی چہرہ: جنگ عظیم دوئم میں شامل خواتین کی زبانی تاریخ(1985 ترجمہ 2017 )،زنکی بوائز: افغانستان جنگ سے سوویت آوازیں(1990 ترجمہ1992 )اور آخری گواہ: جنگ عظیم دوئم کے بچوں کی زبانی تاریخ(1985 ترجمہ 2019 ) شامل ہیں۔
جنگ عظیم دوئم میں روس کی دس لاکھ سے زائد محاذِجنگ پر جانے والی خواتین میں سے چند سو کے انٹرویوز کا سلسلہ ہے جس میں داکٹرز،نرسز،طِبّی معاونین،ہواباز،ٹینک ڈرائیورز،مشین گنرزاور چھپ کر ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے والیاں شامل ہیں۔اب یہ خواتین خود پر حیرت میں ہیں۔
الیکسی وچ نے بیسویں صدی کی اُس مطلق العنان سوشلزم اور مردانہ اختیار کے تحت خواتین کی عدم آزادی کو بے نقاب کیا ہے جو مارکس کے آئیڈیل کے سراسر الٹ تھی۔ہم مچھلی کی طرح خاموش تھیں۔ہم نے کبھی کسی کے سامنے اعتراف نہیں کیا کہ ہم بھی محاذ جنگ پر مردوں کے شانہ بشانہ موجود تھیں۔
ایک سابق اینٹی ائیرکرافٹ کمانڈر کہتی ہیں،’’ کہ ہم صرف آپس میں ہی رابطوں میں رہتی تھیں اور ایک دوسرے کو خطوط لکھتی تھیں۔بہت بعد میں، تیس سال بعد انہوں نے ہماری عزت کرنا شروع کی اور ہمیں تقریبات میں بلانے لگے۔لیکن تب ہم چھپ گئی تھیں اور ہم نے کبھی اپنے تمغے نہیں پہنے تھے۔مرد حضرات ان تمغوں کو پہنتے تھے مگر عورتیں نہیں پہنتی تھیں۔مرد فاتح تھے،ہیروز تھے اور عاشق تھے۔جنگ بھی مردوں کی تھی۔لیکن ہمیں اُس وقت بالکل مختلف نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔الیکسی وِچ سات سال تک ،1978 سے1985 تک ان کو فرداً فرداً ملتی رہیں ہیں۔آخر میں میخائل گورباچوف کے اقتدار میں معاشی اصلاحات کے دور میں کتاب منظر عام پر آئی۔روسی زبان میں لکھی کتاب کی بیس لاکھ جلدیں ایک ہفتے میں بک گئی تھیں۔
اور یہی پذیرائی ’’ زنکی بوائز:افغانستان جنگ سے سوویت آوازوں ‘‘ کو ملی جس میں ان سینکڑوں ماؤں کے انٹرویوز شامل تھے جن کے بیٹے افغانستان جنگ میں مارے گئے تھے۔
تاریخ ایک وہبی سامع ہے جو غیر معمولی احساس کے ساتھ انسانوں پر بیتی تال اور تکرار کو سن کر اسے انسان بنا دیتی ہے۔اور عام زندگی میں ڈھال دیتی ہے۔میں غیر معمولی کہانی سنانے والیوں سے ملی ہوں۔ان کی زندگیوں میں ایسے تابناک صفحات ہیں جو کلاسک کے بہترین صفحات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔عورت اپنے آپ کو آسمان کی بلندی سے اور زمین کی گہرائی سے واضح طور پر دیکھ لیتی ہے۔اُوپر سے نیچے تک ، فرشتے سے درندے تک کا سارا سفر اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
یاد رکھنا حقیقت کی کوئی جذباتی یا غیرجذباتی کہانی نہیں ہے جو اُس حقیقت کو دہراتی ہے جو اب موجود نہیں ہے بلکہ ماضی کی ایک نئی پیدائش کرتی ہے جب وقت پیچھے کی طرف چلتا ہے۔الیکسی وچ لکھتی ہیں کہ سب سے بڑھ کر یہ ایک تخلیقی صلاحیت ہے۔
تاریخ نویسی کے طریقہ کار پر مورخ زبانی تاریخ پر تقسیم ہو جاتے ہیں۔مارکسسٹ مورخ ایرک ھابس بام اُن مورخین میں شامل تھے جو اسے غیر تاریخی تاریخ نگاری سمجھتے تھے۔تو کیا ہوا سمجھا کریں؟ الیسٹر تھامسن جیسے مورخ نے زبانی تاریخ کے امکانات کو دریافت کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ’’ تمّام العودات ‘‘ کی فیس بک پر کرونا وائرس کی عوامی تاریخ کو گرفت کرنے کی کوششیں نہایت دلچسپ ہیں۔یہ بھول جانے( نسیان) ، یادوں کو سرے سے مٹا دینے اوربرے وقتوں میں سیکھے گئے اسباق بھول جانے کے خلاف ایک دفاعی مورچہ ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں