پاکستان: کووڈ 19سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی


پاکستان میں کووڈ انیس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ تین ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ملک بھر میں اب تک اس مرض سے دو ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شوبز، سیاست اور صحافت سے وابستہ جانی پہچانی شخصیات اس مرض سے متاثر ہو رہی ہی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سابق پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی،  پاکستان کے وزیر ریلوے شیخ رشید اور مشہور اداکارہ روبینہ اشرف بھی کورونا وائرس سے متاثر ہیں۔ شیخ رشید قرنطینہ میں چلے گئے ہیں جبکہ روبینہ اشرف آئی سی یو میں ہیں۔  دوسری جانب واٹس ایپ، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر عام شہریوں کے سینکڑوں پیغامات شیئر کیے جا رہے ہیں، جن میں وہ وینٹی لیٹرز یا پلازمہ کی اپیلیں کر رہے ہیں۔

پاکستانی صحافی زاہد گشکوری نے اسلام آباد سے فون پر پاکستان کی صورتحال سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ  انہیں آج ایک رپورٹ پر کام کرنے کے لیے تین سے چار دفاتر میں جانا پڑا۔ ہر دفتر میں یہی بتایا گیا کہ دفتر کو بند کر دیا گیا ہے کیوں کہ وہاں کورونا کے کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ زاہد کا کہنا تھا، ایک خوف اور بے یقینی کا سماں ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ کورونا پر جگہ موجود ہے۔ میڈیا ہاؤسز میں درجنوں کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ بہت سے جاننے والے عزیزوں کی اموات ہو گئی ہیں۔ یہ وائرس ہر کسی کو متاثر کر رہا ہے۔‘‘۔

زاہد کے مطابق اگر ٹیسٹ زیادہ کیے جائیں تو پاکستان میں کیسز کئی گنا زیادہ ہوں گے، حکومت کی پالیسی فیل ہو گئی ہے۔ ملک میں دس مئی کے بعد سخت لاک ڈاون کرنا چاہیے تھا۔ اب حکومت ایک مرتبہ پھر لاک ڈاون کرنے کا سوچ رہی ہے۔ وہ اس پالیسی میں کنفیوز رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت کو بچانے کی بات کی جاتی رہی ہے لیکن اب کورونا وائرس کی وجہ سے دفاتر اور کاروبار بند ہو رہے ہیں تو کیا اب معیشت کو نقصان نہیں پہنچ رہا ؟‘‘۔

پاکستانی صحافی تنزیلہ مظہر کووڈ انیس سے متاثر ہیں اور قرنطینہ میں ہیں۔ انہوں نے فون پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صورتحال بگڑ رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ قیادت کا فقدان اور کوئی ایک واضح موقف اور قومی پالیسی کا نہ ہونا ہے۔ ان کا کہنا تھا،ابھی بھی لوگوں میں آگاہی کی ضرورت ہے ایک عام شہری تک حکومت کی آگاہی مہم نہیں پہنچ سکی۔ وائرس کو روکا نہیں جا سکا ابھی شہر متاثر ہیں لیکن بازاروں میں لوگوں کی تعداد سے اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مرض دیہی علاقوں تک پہنچ جائے۔‘‘۔

کراچی کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے صحافی فیضان لاکھانی کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ ذمہ داری عوام پر بھی عائد ہوتی ہے۔ فیضان کا کہنا تھا، رمضان کے آخر میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ایسا لگا کہ لوگ جیل سے چھوٹ گئے ہیں۔ لوگوں نے شاپنگ کے دوران سماجی فاصلے کا بالکل خیال نہیں کیا۔‘‘ فیضان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کورونا وائرس کے خطرے کو سمجھ ہی نہیں پائے اور اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ملکی قیادت نے بھی اس بیماری کے خطرے کو نہ صحیح طرح سمجھا اور نہ عوام کو آگاہ کیا‘‘۔

واضح رہے کہ چند روز قبل پاکستانی وزیر اعظم نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ کورونا وائرس کے حوالے سے قوائد یا ایس او پیز پر عمل در آمد کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت مکمل لاک ڈاؤن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس حوالے سے اسلام آباد سے صحافی ثاقب تنویر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،پچھلے کچھ دنوں میں کورونا کیسز میں شدید اضافہ ہوا ہے اور یہ سب تب ہوا جب عید سے پہلے  حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا تھا۔ حکومت بارہا عوام سے کہہ چکی ہے کہ آپ ایس او پیز کو فالو کریں مگر ایس او پیز پر عمل کرنے کے لیے پہلے عوام کو یہ باور کروانا ضروری ہے کہ کورونا وائرس ایک بہت اہم مسئلہ ہے‘‘۔

ثاقب کہتے ہیں کہ قیادت کی جانب سے کبھی کہا گیا کہ یہ ایک فلو ہے، پھر کہا گیا کہ صرف بزرگوں کو ہوتا ہے، پھر کہا گیا کہ لاک ڈاؤن فیشن ہے۔ کبھی وزیراعظم ماسک پہنے نظر آتے ہیں اور کبھی نہیں۔ جب وزیر اعظم اور گورنر اس طرح کے بیان دیں گے تو آپ عوام کو آپ مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔

DW.com

Comments are closed.