پاکستانی ڈاکٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کیا جائے۔ ہسپتالوں میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کے لیے مزید بستر میسر نہیں ہیں۔ گھر بھیجے جانے والے مریض بھی آکسیجن سلنڈر کی کمی کے باعث اپنی دیکھ بھال نہیں کر پا رہے۔
لاہور سے ڈاکٹر عمر شفیق نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”حکومت نے لاہور میں کووڈ انیس کے مریضوں کے لیے 241 وینٹیلیٹرز مختص کیے تھے۔ آج کی تاریخ میں نوے فیصد وینٹیلیٹرز زیر استعمال ہیں۔ اس وقت میو ہسپتال کے علاوہ لاہور کے تمام بڑے ہسپتالوں میں نہ ہی مزید مریضوں کے لیے وینٹیلیٹرز دستیاب ہیں اور نہ ہی بیڈز‘‘۔
ڈاکٹر شفیق کے مطابق مالی استطاعت رکھنے والے گھرانے اپنے مریضوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں میں داخل کرا رہے ہیں جہاں وہ یومیہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے ہسپتال کی فیس دے رہے ہیں۔ لاہور کی صورتحال بتاتے ہوئے ڈاکٹر شفیق کا کہنا تھا کہ جن مریضوں کو ہسپتال میں بیڈز کی کمی کے باعث گھر بھیجا جا رہا ہے وہ بھی آکسیجن سلنڈرز کی کمی اور ان کی مہنگی قیمتوں کے باعث اپنا خیال نہیں رکھ پا رہے۔
ڈاکٹر شفیق نے بتایا، ”تین سے چار ہزار روپے میں فروخت ہونے والا سلنڈر اس وقت مارکیٹ میں بیس ہزار روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ کووڈ انیس کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی بارہ ہزار روپے کی دوائی بلیک میں چھ لاکھ روپے تک میں فروخت کی گئی ہے۔‘‘ ڈاکٹر شفیق نے کہا کہ ملک میں پلازمہ عطیہ کرنے کی مہم اور غریب مریضوں کی مالی امدد کرنے کی مہم ڈاکٹر اور سول سوسائٹی کے اراکین مل کر چلا رہے ہیں۔ حکومت ہسپتالوں کی استطاعت نہیں بڑھا سکتی تو کم از کم مہنگے داموں طبی ساز سامان فروخت کرنے والوں پر تو قابو پانے کی کوشش کر سکتی ہے۔
خیبر پختونخوا کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر رضوان کنڈی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”کورونا وبا کی صورتحال شدت اختیار کر گئی ہے۔ ہسپتالوں میں جو بیڈز کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے مختص کیے گئے تھے وہ ختم ہو چکے ہیں۔ آئی سی یو میں بھی بیڈز میسر نہیں ہیں۔‘‘ ڈاکٹر کنڈی نے کہا کہ صوبے کا قریب تیس سے چالیس فیصد طبی عملہ کووڈ انیس سے متاثر ہو چکا ہے جن میں ساڑھے پانچ سو ڈاکٹرز شامل ہیں اور اب تک تین ڈاکٹرز ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ایک اور ڈاکٹر فہیم اللہ محسود کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کا شروع سے یہی مطالبہ تھا کہ کورونا وائرس کے زور کو توڑنے کے لیے لاک ڈاون ضروری ہے۔ عید کے دنوں میں لاک ڈاون میں نرمی کی گئی اب حال یہ ہے کہ بیڈز ہی نہیں مل رہے۔ ڈاکٹر فہیم کے مطابق اسمارٹ لاک ڈاون اثر نہیں کرے گا کیوں کہ لوکل ٹرانسمیشن بڑھ چکا ہے اب ملک میں مکمل لاک ڈاون کی ضرروت ہے۔
سی طرح پاکستانی صوبے بلوچستان سے ڈاکٹر رحیم خان کا کہنا تھا کہ طبی عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی کمی اور عوام میں آگاہی کی کمی کے باعث ڈاکڑز کا مورال پستی کی طرف جا رہا ہے۔ ڈاکٹرز کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور کچھ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر رحیم نے بتایا کہ بلوچستان کے دو سو سے زائد ڈاکٹر کورونا وائرس ے متاثر ہوئے ہیں اور چار ڈاکٹرز اس مرض کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں لاک ڈاون سے متعلق حکومتی پالیسی واضح نہیں رہی۔ گزشتہ ہفتے عالمی ادارہء صحت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ پاکستان کو فوری طور پر لاک ڈاون کرنا ہوگا۔ پاکستان لاک ڈاون اٹھانے کی کسی ایک شرط کو بھی پورا نہیں کرتا۔ گزشتہ روز پاکستانی وزیر اسد عمر کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ حکومت اسمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عمل پر کام کر رہی ہے۔
لاک ڈاون ست متعلق حکومتی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے سلمان صوفی فاونڈیشن کے بانی سلمان صوفی، جو خود بھی کورونا وائرس سے متاثر ہیں، نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”لاک ڈاون نے پوری دنیا میں مثبت نتائج دیے ہیں۔ حکومت کا موقف رہا ہے کہ ملک میں غربت ہے عوام کے پاس کھانے پینے کے وسائل نہیں ہیں۔ لیکن اگر لوگ بیمار پڑیں گے تو وہ دوائیاں کیسے خریدیں گے اور علاج کیسے کرائیں گے۔ وہ گھر میں بھی اپنا خیال نہیں کر سکتے ہیں۔ لاک ڈاون فوری طور پر کیا جانا چاہیے معاشی نقصان تو ہوگا لیکن اگر بیماری بڑھے گی تو حکومت کو دوائیوں، طبی ساز وسامان کی برآمد وغیرہ پر زیادہ پیسہ خرچ کرنا پڑے گا‘‘۔
DW.com