جمشید اقبال
ہفتے کی شب مشعلِ راہ کے ویڈیو لنک پر غامدی صاحب کے مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے سکالر ڈاکٹر خالد ظہیر کے ساتھ ’مذہب ، سائنس اور فلسفہ‘ کے موضوع پر ایک مکالمہ ہوا۔ میرا خیال تھا کہ مکالمہ فیس بک لائیو پر لائیو دکھایا جاسکے گا لیکن بعض تکنیکی وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔
اس دوران پہلے اس سوال پر غور کیا گیا کہ مذہبی طبقہ ،قدرتی آفات سے لے کر ہر اس سوال کا جواب کیوں دینے کی کوشش کرتا ہے جو مذہب کا موضوع نہیں ہیں۔
اس پر ڈاکٹر خالد ظہیر نے فرمایا کہ اس کی وجہ ایک غلط فہمی جو مذہبی طبقے میں پیدا کردی گئی ہے اور وہ یہ ایک جملہ ہے کہ ’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘۔ اس تصور کا بیسویں صدی سے قبل کہیں وجود نہیں تھا کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اس طرح یہ تصور بیسویں صدی کی پیدوار ہے۔ اس کا مذہبی طبقے نے یہ مطلب لے لیا ہے کہ انہیں علوم کی اس دنیا میں ہر موضوع پر بات کرنے کا حق حاصل ہے کیونکہ وہ مذہب کا علم رکھنے کی وجہ سے ہر مسئلے اور ہر علم کے ماہر ہوگئے ہیں۔
اس کے بعد اسلام اور تنقیدی فکر پر بات ہوئی تو ڈاکٹر خالد ظہیر نے فرمایا کہ دنیا کا کوئی مذہب فکر و تدبر اور عقل کے استعمال پر اتنا زور نہیں دیتا جتنا اسلام دیتا ہے۔ اس پر طالب علم نے یہ سوال کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن میں جا بجا فکر و تدبر اور عقل کے استعمال کی دعوت دی گئی ہے لیکن پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اصحابِ فکر کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ضرور سوچیں لیکن ان کی فکر کا کوئی ایسا نتیجہ ہرگز نہ نکلے جو مذہب سے ٹکراتا ہو؟
اس لئے ہم صرف اس بات پر خوش نہیں ہوسکتے کہ ہمارا مذہب فکر و تدبر کا درس دیتا ہے جب تک ہم اس فکر کے نتائج کا احترام نہیں کرپاتے۔ اگر ہم فکر کے صرف من پسند نتائج تسلیم کرتے رہیں گے تو پھر ہم فکر و تدبر کی بجائے صرف ایسی فکر کا رواج چاہ رہے ہونگے جس میں نتیجے تک پہنچنے کے لئےنہیں بلکہ پہلے سے تسلیم شدہ نتائج کے حق میں دلائل گھڑنے کے لئے سوچا جاتا ہے اور تحقیق کے نام پر شغل جاری رہتا ہے۔
اس لئے صرف یہ کافی نہیں کہ ہمارا مذہب عقل پسندی اور فکر کی اہمیت کو مانتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ مسلم معاشروں میں تنقیدی مفکرین کو احترام اور تحفظ بھی نصیب ہوتا ہے۔
اس کے بعد مذہب پر ہونے والی عصری تنقید پر بات ہوئی۔ طالب علم نے سوال کیا کہ اس وقت مقدس کتب پر بنیاد رکھنے والے مذاہب کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ اس سوال کا جواب کیسے دیں کہ زبان تبدیل ہوجاتی ہے اور پیغام رسانی کا ابہام سے پاک ذریعہ نہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے مثال دینے کو کہا تو میں نے جواب دیا کہ آپ جو زبان بولتے ہیں ، آپ کے بچے نہیں بولتے ہونگے اور نہ ہی آپ کے والدین ۔ زبان ایک نسل میں بدل جاتی ہے ، بیس میل پر لہجہ بدل جاتا ہے تو غیر متبدل پیغام تیزی سے تبدیل ہونے والے ذریعے کی مدد سے کیسے دیا جاسکتا ہے؟
اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس کا اطلاق دیگر مذہبی کتب پر ہوسکتا ہے ، ہماری کتاب پر نہیں کیونکہ یہ کتاب ’عربی مبین‘ میں ہے۔ مجھے ان کا جواب سمجھ نہیں آیا اور میں نہیں پوچھ سکا کہ کیا عربی زبان نہیں ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر خالد ظہیر نے یہ فرمایا کہ مغرب نے سائنسی علوم مسلمانوں سے سیکھے ہیں اس لئے سائنسی علوم دراصل ہمارے علوم ہیں۔ میں نے پوچھا تو پھر سائنسی طرزِ فکر اپنانے میں کیا مسئلہ ہے ، مسلم معاشرے اگر یہ طرزِ فکر اپنانے والوں کا خاتمہ نہ کرتے ، سائنسی طرزِ فکر کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی تو مسلم معاشرے بھی انہی نتائج پر پہنچتے جہاں آج مغربی سائنسی علوم پہنچے ہیں۔
آپ مغرب کو سائنسی طرزِ فکر دینے کا کریڈیٹ تو لیتے ہیں مگر ایک بار پھر اس طرزِ فکر کے نتائج تسلیم نہیں کرتے۔ یا تو کریڈیٹ لینا چھوڑ دیں ، یا پھر سائنسی طرزِ فکر اپنالیں ۔ اپنا ہی دیا ہوا طرزِ فکر اپنانے میں کیا عار ہے؟
♦