ایک حالیہ واقعہ کی اطلاع ملی ہے جس میں پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر ضلع باغ کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) سفر کے دوران اوورٹیک کرنے کے الزام میں ایک بے گناہ ٹیکسی ڈرائیور سے بدتمیزی اور تشدد میں ملوث پائے گئے ہیں۔
بظاہر ایسے الزامات فوجداری قوانین کے زمرے میں نہیں آتے ، حتی کے آتے بھی ہوں’ تب بھی ، ڈی سی کے پاس خود سے موقع پر ہی سزا دینے کا اختیار نہیں ہے۔ ملزمان کے جرم یا بے گناہی کا اندازہ لگانے کے مقصد کے لئے مختلف عدالتوں کی ایک درجہ بندی قائم کی گئی ہے۔
یہ واقعہ مبینہ طور پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ۔اگر ڈرائیور نے ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسا کیا ہو جس میں ڈرائیور پر ذیادہ سے ذیادہ جرمانہ عاید کیا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ ہم سترہویں صدی میں نہیں جی رہے ، جہاں آقا اور ان کے حاشیہ بردار انسانوں کو اپنا خادم سمجھتے اور ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے۔ ڈپٹی کمشنر نے اپنے پیشرو قبضہ گیروں کی تربیت کے مطابق لوگوں کو غلام سمجھنے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے ایک عام شہری کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا اور اس پر اسے کوئی شرمندگی اور پشیمانی بھی نہ ہوئی۔
اس نے خود کو یہاں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اپنی جھوٹی انا ، غیر انسانی اور عوام دشمنی کا مزید ثبوت دیتے ہوئے پولیس کو ذاتی طور پر ہدایت کی کے ملزم کو مزید تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ اس کے خلاف ایک ایف آئی آر بھی درج کی جائے۔پولیس نے بھی یہ جانے بغیر کہ قانون اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں ڈپٹی کمشنر کے حکم کو ہی قانون سمجھتے ہوئے اسے غیر قانونی طور پر تھانے میں بند کر دیا اور ایک دن بعد پیسے لے کر اسے رہا کیا گیا۔
ایک آزادی پسند تنظیم کے کارکنان نے سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک کو استعمال کرتے ہوئے اپنے شعور کے مطابق احتجاج کیا اور ڈپٹی کمشنر کے غیر قانونی اور غیر انسانی اقدام کے خلاف آواز بلند کی ۔ انھیں فرضی اور من گھڑت الزامات پر گرفتار کر کہ جیل میں ڈال دیا گیا۔اس طرح ضلع پونچھ کی تحصیل تھوڑاڑ سے موصول ہونے والی خبر کے مطابق ایک سیاسی کارکن کو ایس ایچ او کے خلاف احتجاج کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا جس نے اس کے بجا اختیارات کے استعمال پر بات کرنے کی جرات کی تھی۔
یہ بڑی بد بختی کی بات ہے کہ بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین ، جن کا بنیادی فریضہ امن و امان قائم کرنا، معاشرے میں امن و سکون برقرار رکھنا اور قانون کی بالا دستی قائم کرنا ہوتا ہے، خود بنیادی انسانی حقوق کی گھناؤنی خلاف ورزیوں اور ماورائے قانون اقدامات کرنے میں مصروف عمل ہیں۔انہیں غیر قانونی اقدام کرنے پر کسی قسم کی تادیبی کروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اختیارات کا بے جا استعمال کر کے عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے بجاے ان پر عذاب کی طرح مسلط ہیں ۔
بیوروکریسی (نوکر شاہی) اور سول انتظامیہ ، جو عام عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے اپنی تنخواہیں پاتے ہیں ‘انہی سے آقا کی طرح پیش آتے ہیں۔ان کی تربیت ، معیار ، تعلیم اور حتی کہ قوانین ابھی تک حد درجہ روایتی فرسودہ اور عوام دشمن ہیں ۔بلکہ یہ زیادہ مناسب ہو گا اگر انہیں نوآبادیاتی عہد کی باقیات سے تشبیہ دی جائے ۔جب حملہ آور ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے ، بے رحمی ، من مانی طاقت اور آہنی ہاتھوں سے آبادی کو فتح کرتے تھے۔
مجموعی طور پر ، نام نہاد آزادی کے 73 سال گزرنےکے باوجود ‘یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں، بیوروکریسی کے قوانین میں کوئی خاص تبدیلی لانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں ۔ یہاں تک کہ وردی ، مونوگرام ، نعرے بازی ، تربیت اور تفتیش کے طریقہ کار وغیرہ تک ویسے ہی بوسیدہ ہیں’ جو برطانوی بادشاہت نے اپنے قیام کے دوران متعارف کرائے تھے ۔
آپ کے لئے یہ ایک حیرت زدہ حقیقت ہوسکتی ہے ، کہ پنجاب پولیس (دیگر صوبوں میں بھی) کے اعلی عہدے کی تربیت کے کورس میں ایک باب عوام کو گالیاں دینے کے متعلق موجود ہے۔ جس میں انھیں سکھایا جاتا ہے کہ عام لوگوں کو بے عزت و ناروا سلوک برتنے کے لیے کیا کیا ہھتکنڈے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک عام تجربہ ہے کہ بیوروکریسی خود کو عوام سے الگ تھلگ رکھتی ہے۔ کیوں کہ ان کی تربیت اسی طرح کی جاتی ہے تاکہ عوام پر ان کی دھونس برقرار رہ سکے ۔
جب کبھی بھی ایسے واقعات پیش آتے ہیں تو ہم کچھ دن اپنے غم و و غضب کے اظہار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مگر جیسے ہی ہمیں کوئی نیا ایشو ملتا ہے معاملہ کھائی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ تاریخ افسر شاہی کی بد سلوکی ، بے جا طاقت غلط عمل اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے بھری پڑی ہے۔ اس کے باوجود تاحال زمانہ قدیم کے” قوانین برائے افسر شاہی” (سول سرونٹ ایکٹ) میں نہ کوئی خاطر خواہ ترامیم کی گئی اور نہ ہی کوئی نیا مسودہ متعارف کروایا گیا ہے۔
اگرچہ عمومی طور میں خود عدالت کی جانب سے سو موٹو (از خود) نوٹس کا حامی نہیں ہوں۔لیکن پھر بھی ، ایسے معاملات جو بنیادی حقوق کی پامالی سے متعلق ہوں ، عدالتی کاروائی ایک جواز رکھتی ہے۔ عدالتوں کو ایسے واقعات کو بلاجواز نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے جو تعصب ، مفاد عامہ سے متصادم اور عوام کے بنیادی حقوق پر دخل اندازی کے مترادف ہوں ۔ در حقیقت ، عدالتوں کو ایسے ابہام اور قانونی نقائص کے بارے میں زیادہ دلچسپی لینی چاہئے ، جو استثنیٰ کے بہانے ذمہ داریوں سے محفوظ راستہ فراہم کرتی ہے۔
یہ ایک دوہری ذمہ داری ہے جو حکمران طبقہ اور عام عوام پر یکسر عائد ہوتی ہے۔ مقننہ کا بنیادی فریضہ نئے قوانین مرتب کرنا ، ایسی ترامیم جو عصر حاضر سے موافق ہوں متعارف کروانا، سابقہ قوانین جو بنیادی انصاف کے اصولوں کے منافی ہوں کا خاتمہ اور تمام نوآبادیاتی قوانین جو انسانیت سی مطابقت نہ رکھتے ہوں کا قلع قمع کرنا شامل ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ ایک “قومی کمیشن برائے قانونی اصلاحات” تشکیل دے ، تاکہ موجودہ قانونی نظام اور نوآبادیاتی قوانین کے مابین موجود سقم اور خامیوں کا پتہ لگایا جا سکے اور ایسے تمام قوانین کو یکسر متصادم قرار دیا جائے جو بنیادی حقوق’ بین الاقوامی اصولوں ، یا انسانیت کے خلاف پائے جائیں۔ ایک ایسی عوامی پالیسی مرتب کی جائے جس کہ مطابق ایسے تمام سرکاری ملازمین جو تابع داری ، بدتمیزی ، بد سلوکی، مختار کل’ اختیارات کے ناجائز استعمال یا عوام سے بد سلوکی کے مرتکب پائے جائیں انھیں فی الفور ملازمت سے نکال باہر کر دینا چاہیے۔
عام لوگوں پر بھی لازم ہے کہ جب وہ کسی سماجی مسئلے کو اٹھائیں تو اس وقت تک کھڑے رہیں جب تک کہ کوئی بنیادی قانون سازی نہیں ہو جاتی اور حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کے ذریعہ کسی قانون / بل کی منظوری کی ضمانت نہیں دی جاتی۔ سرکاری ، انتخابی ، عدالتی ، انتظامی اور مقامی حکام پر معاشرتی ، سیاسی اور اخلاقی دباؤ کو برقرار رکھیں تاکہ فوری طور پر ازالہ کرتے ہوئے نوآبادیاتی پالیسیوں کو یکسر چھوڑتے ہوئے ایک نئے منصفانہ ، عادلانہ اور یکساں نظام کے قیام کی طرف پیش رفت نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ جب تک ہم چھوٹی چھوٹی فتوحات حاصل نہیں کرتے ہم بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔
♥