حسن مجتبیٰ
قسط ۲۔(ٖگذشتہ سے پیوستہ)۔
یہی دن تھے (۱۹۷۵)جب جی۔ ایم۔ سید کی سندھی زبان میں مشہور کتاب “سندھودیش چھو آئیں چھا لائے” (سندھو دیش کیوں اور کس لیے”) شائع ہوکر ِآئی تھی اور اس پر پرنٹ لائین تھی: “یہ کتاب کیرت بابانی نے الہاس نگر انڈیا سے شائع کی” جبکہ دراصل یہ کتاب کراچی میں سید کے وفادار پیروکار محمد جمن (گائک نہیں) کی پریس سے شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب جو اب انگریزی میں بھی ترجمہ ہے سید کے پیروکاروں نے خفیہ طور اور دستی تقسیم کی تھیں۔
یہ کتاب جی ایم سید کے سندھو دیش وزن کی بائیبل ہے۔ اسی کتاب میں سندھ کا پرانا تاریخی نام سندھو دیشا بتاتے ہوئے جی ایم سید نے لکھا ہے کہ سندھ ایک آزاد و خودمختار ملک رہا ہے۔ سید نے یورپ اور ایشیا کے ایسے کئی ممالک کی مثالیں دی ہیں جو سندھ سے رقبے اور آدمشاری میں چھوٹے ہیں لیکن اقوام متحدہ میں آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیے گئے ہیں۔ اگرچہ جی ایم سید نے ہمیشہ اس بات پر زوردیا کہ سندھی اپنے آزادی خود لیں گے لیکن اگر بھارت سمیت کوئی ملک انکی اخلاقی اور سیاسی مدد کرے تو وہ اسکا خیرمقدم کریں گے۔
جی ایم سید کے سندھو دیش کے نعرے نے جیئے سندھ کے کارکنوں، رہنماؤں، ہمدردوں پر ریاستی دہشتگردی اور تشدد کا لامتناہی سلسلہ کھول دیا اور دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو نے بھی فوجی ایسٹبلشمنٹ اور پنجاب کے خواص چاہے عوام کو یہ باور کرایا کہ ایک وہی حکمران ہے جس نے جی ایم سید کو نظربند رکھ کر اور اسکے لوگوں کو جیلوں میں ڈال کر سندھو دیش کو روکا ہوا ہے۔ ادھر جی ایم سید اس بات سے اپنے کارکنوں کے سینکڑوں بار اصرار کے باوجود انکار کرتے رہے کہ بھارت ان کو ہتھیاروں، تربیت اور پیسوں کی مدد کرے۔ تاہم اوہ اسکے حق میں رہے کہ بھارت کے ساتھ “پبلک سفارتکاری” قائم کی جائے اور اس سلسلے میں انہوں نے وقت بوقت اپنے لوگ بھارت بھی بھیجے۔
کیرت بابانی جو کہ تقسیم کے وقت سندھ سے بھارت نقل وطنی کر کر گئے ہوئے سندھی زبان کے ممتاز ادیب تھے اور متحدہ ہندوستان میں سرگرم طالبعلم رہنما رہے تھے بھارت میں جی ایم سید کے زبردست ہمدرد و مددگار رہے۔ کیرت بابانی نے سنہ 2004 میں سندھی میں اپنی آپ بیتی “ کجھ لکایم ایم کجھ بدھایم “ (کچھ چھپایا کچھ بتایا) کے عنوان سے لکھی ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ پاکستان سے کون کون سے قوم پرست اور سندھی رہنما بھارت آئے اور انکی معرفت بھارتی حکومت کی حمایت حاصل کرنے کو انکو مدد کا کہا۔ اور ایسے بھی تھے جو پاکستان سے بغیر کسی دستاویز کے سرحد پار کر کرآ جا چکے تھے۔
کیرت بابانی نے لکھا ہے “ایک دن میرے گھر کا دوازہ کھٹکا میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان کھڑا ہے۔ اس نے کہا وہ سرحد پار کر کے مجھ سے ملنے آیا ہے” کیرت بابانی اس کتاب میں لکھتا ہے۔ کیرت بابانی کا تعلق بہت سے مشہور سندھی شخصیات کے برعکس ، کانگرس سے تھا۔ وہ گاندھی کی عدم تشدد کا پیروکار تھا۔ جی ا یم سید چونکہ زیادہ عرصہ اپنے گاؤں سن یا کراچی اپنی رہائشگاہ پر نظر بند ہی رہے۔ لیکن ان سے ملنے والوں پر زیادہ تر پابندی نہیں تھی۔ انکے کئی پیروکار انہی یہ باور کرانے آتے کہ سندھی عوام سندھودیش کیلے تیار ہے، لوگ تیار ہیں بس وہ “ گوریلا جنگ” کا اعلان کریں۔ وہ سید سے کہتے کئی نوجوان گوریلا تربیت کیلے تیار ہیں۔
کئی تو ایسے بھی تھے جو سید سے اس سلسلے میں رقم کا مطالبہ بھی کرتے یا بھارت انکے سندھی بہی خوا شخصیات کا خیال تھا کہ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی یا نہرو خاندان کے سید کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں (چہ جائیکہ شاید وہ انکی بڑی عزت بھی کرتے تھے) کو پیغامات بھیجنے کو کہتے۔ لیکن سید نے اکثر اوقات ایسی مہم جوئی سے اجتناب برتنے کی ہدایات کیں کہ ان کو سندھ کی آزادی کے لیے کسی غیر ملک کی فوجی یا مالی مدد کی ضرورت نہیں۔ لیکن تاہم وہ ان سے سیاسی اور اخلاقی مدد ضرور چاہتے تھے۔
سنا ہے کہ انہی دنوں اندرا گاندھی کی حکومت کے متعلقہ عملداروں کا خیال تھا کہ کہ پاکستان سے سندھی سرحد پار کر کر پناہ گزیں بن کر آئیں اور اسی طرح سندھ میں علیحدگی پسند سیاست کی مدد کی جا سکتی ہے۔ نیز یہ کہ پاکستان کی سرحد پر سندھ سے پناٰہ گزین کیمپوں کے کور میں گوریلا تربیت بھی دی جاسکتی ہے۔ سید کی طرف سے وقتا ً فوقتاً انکی پارٹی جیئے سندھ محاذ یا اسکی طلبہ تنظیم جیئے سندہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے لوگوں کا سرحد پار کر کر بھارت جانے کی روایات کافی سالوں تک جاری رہی تھیں۔ کبھی سید کے نمائندے کے طور بھارت کے متمول سندھی ہندوْوں کو قمر بھٹی نے لوٹا تو کبھی دیگر نے۔
سید نے نہ فقط اپنے لوگ انڈیا پر افغانستان بھی بھیجے یا کم از کم انہوں نے افغان حکام اور وہاں جلاوطن پشتونوں اور بلوچوں کو یہ باور کرایا کہ وہ سید کے نمائندے کے طور پر سندھیوں کی مدد کی اپیل لیکر آئے ہیں۔ داؤد خان سے نجیب اللہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ شاہ محمد شاہ، اسماعیل وسان اور شاید قمر راجپر بھی اس ضمن میں افغانستان گئے۔ 1980 کی دہائی میں باقاعدہ طور جیئے سندھ کے مخصوص دھڑوں کی طرف سےبھارت سے پینگیں بڑھائی جاتی رہیں ، جن میں قادر مگسی کے اسوقت کے جیئے سندھ میں ترقی پسند پارٹی کے دھڑے میں باقاعدہ “خارجہ امور” کا شعبہ قائم کیا گیا تھا۔
سنہ 1980 کی دہائی کی وسط میں جب خان عبدالغفار باچا خان علیل تھے اور دھلی کے ہسپتال میں داخل تھے تو اسوقت پاکستان میں فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی اور بھارت میں راجیو گاندھی کی۔ ضیا الحق حکومت کی اجازت سے جی ایم ، سید غفار خان باچا ن کی عیادت کو اپنی کچھ پارٹی کے لوگوں کیساتھ بھارت کے دورے پر گئے تھے۔ جب وہ اپنے وفد کے ساتھ دہلی ائیرپرٹ پر اترے تو انکے وفد میں شامل انکی پارٹی کے حبیب اللہ ناریجو کو انڈین سیکورٹی یا جاسوسی ادارے را کے اہلکار الگ کر کے اپنے ساتھ پوچھ گچھ کرنے کو لے گئے تھے۔ سید کے احتجاج کرنے پر کہ ہمارے آدمی کو کیوں لے جا رہے ہو؟ تو سید کو بتایا گیا تھا کہ یہ آپ کا آدمی نہیں ہے۔ (جاری ہے)۔
♦
پہلی قسط
Pingback: سندھی علیحدگی پسند تنظیمیں اور دہشتگردی۔ قسط 3 – Niazamana