رضوان عبدالرحمان عبداللہ
کسی سیانے نے شاید درست کہا ہے کہ عقل ہمیشہ دیر سے اور بہت کچھ گنوانے کے بعد ہی آتی ہے۔ ہمارے محترم وزیراعظم کو بھی کورونا وائرس کی موزیت کا ادراک 103 دن گزر جانے کے بعد اس وقت ہوا جب 103,671 افراد اس مرض میں مبتلا اور 2,067 جانیں ضائع ہو چکیں تھیں۔
چونکہ ابھی بھی پوری عقل نصیب نہیں ہوئی، تو خان صاحب کوئی عملی اقدام کرنے کی بجائے فقط عوام سے مطالبہ کررہے کہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ آخر عوام سنجیدگی کیوں دکھاتی یا دکھائیں؟ جب ان کے وزیراعظم ٹی وی پر آ کر بلند و بانگ دعوؤں اور غلط حقائق کی مدد سے کورونا وائرس کو غیر سنجید مسئلہ دینے میں مصروف نظر آتے تھے۔
کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں پہلے خان صاحب نے قوم کو یہ کہہ کر ’’ڈھیٹ‘‘ بنایا کہ یہ وائرس فقط ایک عام فلو ہے جو چند دنوں میں ٹھیک ہو جاتا ہے، پھر ’’کورونا سے گبھرانا نہیں‘‘، ’’کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘‘ جیسے گمراہ کن نعروں سے مزید ’’ڈھٹائی‘‘ پر آمادہ کیا۔ گرمی سے وائرس کے پھیلاؤکم ہو جانے اور ملک میں کورونا کی کمزور شکل جیسے خان صاحب کے غیر حقیقت پر مبنی حقائق نے بھی عوام کو بے احتیاطی برتنے پر راغب کیا ۔
وزیراعظم کی جانب سے ٹیسٹ کروانے میں جلد بازی سے ممانعت بھی کی جاتی رہی اور وائرس کو صرف ”بوڑھوں‘‘ کے لئے خطرناک ہونے کی تاویل بھی گھڑی۔ خان صاحب نے تو اجتماعات کی مزید حوصلہ افرائی کے لئے مساجد سے کورونا کا پھیلاؤ نہیں ہوا جیسے بیان بھی داغا اورجب خمیازہ بھگتنے کا وقت قریب آنے لگا تو ساری تان عوام کی غیر سنجیدگی پر جا کر ٹوٹی۔ آج جاننے کے لئے کہ عوام کورونا وائرس کے بارے میں کتنا شعور رکھتی ہے گیلیب سروے کا مطالعہ کریں جس کے مطابق 63 فیصد پاکستانی شہری یقین رکھتے ہیں کہ کورونا وائرس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر بتایا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا جیسے موزی وبا کے سامنے ملک کی برسوں برس کی غلط ترجیحات کی وجہ سے کسی حد تک نقصانات نا گزیر تھے۔ لیکن ایک بہتر حکمت عملی اور وسائل کے درست استعمال سے اس نقصان کو کم سے کم کرنا ہر گز ناممکن نہیں تھا۔ دنیا کا تئیسواں بڑا دفاعی اخراجات کرنے والا ملک تو اول دن سے ہی وسائل نا ہونے کا رونا شروع ہو گیا جبکہ حکمت عملی بھی حکمت اور عمل دونوں سے عاری نظر آئے۔
حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ائرپورٹس اور بارڈر انٹری پر حفاظتی اقدامات اپنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ وائرس کے پھیلاؤ کے روک تھام کے واحد طریقے لاک ڈاؤن کا بھی خان صاحب نے خوب تمسخر آڑایا۔ کبھی فرمایا لاک ڈاؤن نہیں ہوگا، جب کسی نے کروایا تو اس کے فوائد بھی گنوائے۔ لاک ڈاؤن اٹھایا تو اس کی گھنٹی اشرافیہ کے گلے میں باندھ کر ان کو مورد الزام ٹھہرایا اور آخر میں اس نام نہاد لاک ڈاؤن کے آگے سمارٹ کا لفظ لگا کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ بھی ہوگئے۔ غصب خدا کا خان صاحب دنیا کو بھی آمادہ کرنے پر تلے ہیں کہ وہ ہماری اس ’’سمارٹ‘‘ پالیسی کی تقلید کریں۔
ان سب کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلنا چاہیے تھا کہ آج پاکستان کورونا سے نمٹنے میں ناکام ہے اور ایشیا کا چوتھا خطرناک ملک بن چکا ہے۔ معتبر ڈاکٹر صاحبان اور ماہرین نے نے جن خطرات سے پیشگی آگاہ کر رہے تھے وہ تیزی سے حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ ایمان اور غیر تربیت یافتہ نوجوان جو اس جنگ میں خان صاحب کے سب سے مؤثر ہتھیارتھے وہ بھی میدان جنگ سے غائب ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں کو خان صاحب نے جو الٹی میٹم دی اس کا اثر یہ ہوا کہ آٹا، چینی، ادویات اور پڑول کی مصنوعی قلت کردی گئی۔ مخیر حضرات سے جمع کئے گئے عطیات اور حکومتی ریلیف فنڈ کی شفافیت کے بارے میں ملک کی اعلی عدلیہ سوال اٹھا رہی ہے۔ حکومت کی نئی حکمت عملی اب یہ ہے کہ قوم کو ٹک ٹاک سٹارز کے ذریعے سدھارا جائے۔
ریاست کے دوسرے اور تیسرے ستون کی طرف دیکھیں تو ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ سے سے تو توقع ہی بیکار تھی۔ لیکن شکر ہے ہماری عدلیہ کو ہی احساس ہو گیا ہے کہ ’’کرونا وائرس لوگوں کو مار رہا ہے‘‘ امید ہے اگلی عید میں پرانے کپڑوں سے کام چلانا بھی جرم نہیں تصور ہو گا۔
یہاں پر یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ بطور معاشرہ ہم اس وقت تک کورونا جیسی وبائی مرض کو شکست نہیں دے سکتے جب تک ہر فرد اپنی انفرادی ذمہ داری پر سنجیدگی سے عمل پیرا نا ہو۔ لیکن بطور منتظم یہ ذمہ داری خان صاحب کی ہی تھی کہ وہ ایسی منصوبہ بندی تشکیل دیتے جس میں احتیاطی تدابیر اور معاشی سرگرمیاں دونوں پر ہی عمل درآمد کیا جا سکتا۔ پر خان صاحب کے اطوار پر تو منیر نیازی کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘‘۔
♦