تعارف و تبصرہ:لیاقت علی
طفیل عباس کا شمار پاکستان میں بائیں بازو(کمیونسٹ) کے رہنماوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ستمبر2019 میں 91 سال کی عمر میں کراچی میں وفات پائی تھی۔ طفیل عباس نے بائیں بازو کی سیاست سے وابستگی اور ٹریڈ یونین تحریک کے حوالے سے جدوجہد کی تفصیل اپنی خود نوشت’صبح کی لگن‘ میں بیان کی ہے۔ ان کی یہ خود نوشت ان کی وفات سے دس سال قبل 2010 میں شایع ہوئی تھی۔
طفیل عباس اپنے دعوی کے مطابق تمام عمر ثابت قدمی سے مارکس، لینن اور ماوزے تنگ کی فکر وعمل سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے پاکستان کے سماج اور ریاست میں انقلابی تبدیلیوں کے لئے برسر پیکار رہے۔ صورت حال خواہ کتنی کٹھن اور مشکل ہی کیوں نہ رہی ہو انھوں نے موقع پرستی کی راہ کا انتخاب کبھی نہ کیا اور اپنے نظریات کی روشنی میں اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔انھوں نے ایک لیفٹ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا ابتدائی طور پر نام قومی مزدور محاذ تھا لیکن بعدازاں اس کو بدل کر پاکستان مزدور محاذ کر دیا گیا جس کے وہ” تاحیات “سربراہ رہے۔’منشور‘کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ بھی جاری کیا جو بائیں بازو کی صحافت میں مسلسل اشاعت کا طویل ریکارڈ رکھتا ہے۔
ماہنامہ’منشور‘ کی اشاعت کے بارے میں طفیل عباس لکھتے ہیں کہ ’اس کے اجرا کے لئے عمر قریشی ڈائیریکٹر پبلک ریلیشنز پی آئی اے کا اجازت نامہ ضروری تھا۔یہ اجازت نامہ ہمیں ائیر مارشل اصغر خان نے لے دیا۔ اس طرح ہمارا ماہنامہ ’منشور‘ 1964سے نکلنا شروع ہوا۔ اس رسالے نے نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بین الاقوامی سطح طبقاتی سیاست کو آگے بڑھانے میں بڑا اہم کردار اد کیا۔ طفیل عباس کے مطابق یہ رسالہ ایوب خان کے دور میں بھی اپنا کردار ادا کرتا رہا۔جنرل یحییٰ خان کے دور میں بھی ہر قسم کی مخالفت کے باوجود منشور نکلتا رہا مگر جب بھٹو برسر اقتدار آئے تو انھوں نے نہ صرف ہمیں جیل بھجوایا بلکہ یہ رسالہ بھی بند کردیا۔سنہ1988 میں جب جمہوریت بحال ہوئی تو ہمیں دوبارہ منشور کے اجرا کی اجازت ملی گئی اور جون 1989 سے یہ رسالہ ’عوامی منشور‘ کے نام سے باقاعدگی سے شایع رہا ہے(صفحہ 78)۔
طفیل عباس یوپی ہندوستان کے ایک چھوٹے سے قصبے ڈیبائی میں پیدا ہوئے تھے ان کا بچپن تنگدستی میں گذرا۔ 14سال کی عمر میں میٹرک پاس کیا لیکن عمر کم ہونے کی بنا پر سرکاری ملازمت تو مل نہیں سکتی تھی لہذا دادی نے اپنی زمین بیچ کر انھیں مزید تعلیم کے لئے علی گڑھ بھیج دیا جہاں سے انھوں نے1946میں بی اے پاس کرلیا۔ چونکہ تعلق شیعہ فرقہ سے تھا اس لئے حسینیت میری فطرت کا لازمی عنصر رہی۔صفحہ15۔
علی گڑھ میں دوران تعلیم ذہن میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ پاکستان ضرور بننا چاہیے(صفحہ 16)۔ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہمیں تو ہندوستان میں ہی رہنا ہے مگر مسلمانوں کا اپنا ملک ہونا چاہیے(17)۔ گو میرا یہ خیال تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ہم سب (مسلمان) لوگ ہندوستان میں ہی رہیں گے لیکن اس کے باوجود میں نے 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کے لئے کام کیا تھا۔ ہمارے ایک عزیز ارتضی حسن جو کانگریس کے امیدوار تھے کے مقابلے میں ہم نے نواب چھتاری کے رشتہ دار کنور عمبار مسلم لیگی امیدوار کی حمایت کی تھی۔ ارتضی حسن نے اصرار کیا تو میں نے ان سے کہا کہ یہ درست ہے کہ ہمیں آپ کے ساتھ ہندوستان میں رہنا ہے اور ضرورت پر آپ ہی ہمارے کام آئیں گے مگر اصولی طور پر ہم انتخابات میں مسلم لیگ کے لئے ہی کام کریں گے (صفحہ 21)۔
انگریز سرکار کے خلاف جنونی انداز میں کام کرنے کی بنا پر مجھے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا جس کا مطلب تھا کہ زندگی بھر یونیورسٹی میں دوبارہ داخلہ نہیں مل سکتا(صفحہ 17)۔دادی اور والدہ کی دوڑ دھوپ اور کچھ رشتہ داروں کا اثر و رسوخ یونیورسٹی میں ہونے کی بنا پر دوبارہ داخلہ مل گیا۔ امتحان دیا اور میں پاس ہوگیا۔
لکھتے ہیں کہ ہمارے قصبے ڈیبائی میں محرم الحرام کے دن بہت جذباتی فضا میں گزرتے اور ہم جیسے نوجوان یہیں پر حُسینت کا درس لیتے اور یزیدیت سے نفرت سیکھتے تھے۔ ڈیبائی میں منعقد ہونے والی محرم کی مجالس میں ان کی ملاقات سبطین نامی شخص سے ہوئی جس نے انھیں ابتدائی طور پر بمبئی میں مزدوروں، ان کی یونینز اور مزدوروں کے لال جھنڈے کے بارے میں قصے سنائے۔ ان کی گفتگو میں پارٹی کا بھی ذکر آتا تھا۔ تقسیم کے جب طفیل عباس کراچی آئے تو’سبطین مجھے کراچی میں ملے اور ان کے ذریعہ یہاں مزدور کارکنوں سے رابطے کا موقع ملا (صفحہ 19)۔
کراچی میں طفیل عباس ابتدائی طور پر ا دھر اُدھر چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے رہے لیکن جب اورینٹ ائیر لایئنز نے اپنا دفتر کلکتہ سے کراچی منتقل کیا تو مارچ 1948 میں انھیں 175روپے ماہوار پر ملازمت مل گئی۔ائیر لائن کی یہ نوکری میری زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ اس نے میری سوچ کا رخ بدل ڈالا اور میں وہ بن گیا جس کا مجھے کبھی خیال بھی نہ تھا(صفحہ22)۔ طفیل عباس لکھتے ہیں کہ11 ستمبر 1948کو محمد علی جناح کی وفات سے ان کے دل و دماغ کو زبردست دھچکا لگا۔اس سے بڑا صدمہ شاید مجھے یاد نہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔
اورینٹ ائیر لائنز کی ملازمت کے دوران وہ ٹریڈ یونین تحریک سے متعارف ہوئے۔ انھوں نے ائیر ویز ایمپلائز یونین قائم کی اور ان کے بقول پاکستان کی مزدور اور بائیں بازو کی تحریک میں اس یونین کا منفرد مقام رہا۔ طفیل عباس کی خودنوشت کا بڑا حصہ ان کی پی آئی اے میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر مشتمل ہے اس میں بائیں بازو کی سیاست بارے انھوں نے بہت کم لکھا ہے او ر جو لکھا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ’میں یہاں تھا میں وہاں تھا اور میں ہرجگہ تھا‘۔
طفیل عباس سوویت یونین میں سٹالن کے طرز حکمرانی اور نظریات سے متاثر رہے اس لئے ’جب سوویت یونین میں، سٹالن کے مرنے کے بعد حکمران ٹولہ ترمیم پسند ی کی طرف مائل ہوگیا تھا۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ روس میں سٹالن کی قبر کھودی گئی ہے اس خبر کو پڑھنے کے بعد میرا تجزیہ تھا کہ اسٹالن کی قبر کھودنے کے بعد لینن کی قبر ضرور کھودی جائے گی اور ایسا ہی ہوابھی۔(صفحہ 36)۔
طفیل عباس بھٹو سے بہت ناراض ہیں کیونکہ انھوں نے ان کی جماعت سے متحدہ محاذ بنا کر توڑ دیا تھا اور انھیں اورا ن کے ساتھیوں کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ طفیل عباس ائیر مارشل نورخان، ائیر اصغر خان، محمود ہارون اور رفیق سہگل کی دوستی کے معترف ہیں۔ یہ ائیر مارشل اصغرخان ہی تھے جنھوں نے انھیں چین بھجوانے میں مدد دی تھی اور طفیل عباس اپنے آئیڈیل ملک اور وہاں برسر اقتدار پارٹی کی تنظیم اور طرز حکمرانی کا مشاہدہ کرکے واپس آئے تھے۔
طفیل عباس نے اپنی خود نوشت میں بائیں بازو کے صرف دو رہنماوں کا ذکر کیا ہے ایک معراج محمد خان جنھیں وہ کم و بیش اپنا شاگرد بتاتے ہیں اور دوسرے میجر اسحاق محمد جنھوں نے انھیں پولیس کے ہاتھوں پٹتا دیکھ کر مدد کرنے کی بجائے دوسری گلی سے نکل جانا مناسب سمجھا تھا۔ معراج محمد خان سے تو وہ ناراض ہیں کیونکہ انھوں نے ان کی مرضی کے بغیر بھٹو حکومت میں وزارت قبول کرلی تھی۔
طفیل عباس کے مطابق جس دن جنرل یحیی خان نے ملک میں مارشل لا لگایا تھا اس سے اگلے روز جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت خوش تھے۔ان کا کہنا تھا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔یحییٰ خاں ان کا دوست تھا کیونکہ وہ دوسری مرتبہ اس کی سروس میں ایکسٹیشن انہوں نے ہی کرایا تھا اور جب وہ بھٹو جنرل ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہوئے تو جنرل یحییٰ خان نے ان کے اعزاز میں بہت شاندار پارٹی دی تھی۔بھٹو یحییٰ خان کے مارشل لا سے بہت خوش نظر آتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل ایوب خان سے چھٹکارا ملا تو دوسری وجہ یہ تھی کہ یوسف ہارون کا گورنر کے سے علیحدہ ہونا تھا کیونکہ ہارون خاندان سے بھٹو کی پرانی رقابت تھی۔ یحییٰ خان سے بھٹو کی ملاقاتیں ہوتی رہتی تھی (صفحہ 144)۔
پیپلزپارٹی سے مایوس ہونے کے بعد طفیل عباس نے تحریک استقلال سے رشتہ جوڑلیا اور اپنے ساتھیوں کو تحریک میں شامل کرادیا تھاکیونکہ تحریک استقلال پورے پاکستان میں ایک جاندار پارٹی کے طور پر ابھر رہی تھی۔ بعد ازاں ائیر مارشل اصغر خان سے بھی ان کی نہ بن سکی کیونکہ انھیں ایسا لگ رہا تھا کہ اصغر خان کی شکل میں سی آئی اے اور کے۔جی۔بی کا اتحاد ہورہا تھا اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ تحریک استقلال سے علیحدگی اختیار کرلی جائے۔
طفیل عباس کی خود نوشت کا نام صبح کی لگن کی بجائے پی آئی اے میں ملازمت کی کہانی زیادہ مناسب ہوتا کیونکہ کتاب کا زیادہ تر حصہ ان کی پی آئی اے میں ملازمت،دوران ملازمت پیش آنے والی مشکلات اور مسائل، پی۔آئی۔اے کے مختلف ادوار میں بننے والے سربراہان اوران کے رویے اور طفیل عباس سے ان کا سلوک پر مشتمل ہے۔
طفیل عباس نے پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست، اس کی کامیابی اگر کوئی ہے اور ناکامیوں کی وجوہات کے ذکر سے اجتناب کیا ہے انھوں نے اپنے سوا بائیں بازو کسی دوسری دوسری شخصیت کا ذکر تک نہیں کیا ہے
♦