حقوق نسواں کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور اقلیتوں کے نمائندوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کو تحریک کی قیادت سونپنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پی پی پی اور ن لیگ نے ایسا کر کے تحریک کی قبر خود کھود دی ہے۔ واضح رہے کہ پی ڈی ایم نے حال ہی میں جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو اس حکومت مخالف تحریک کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ تحریک کا پہلا عوامی جلسہ اٹھارہ اکتوبر کو کوئٹہ میں ہوگا جب کہ اس کی دیگر چھوٹی موٹی سرگرمیاں بھی چل رہی ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت مخالف اتحاد ہے، جس کا مطمع نظر پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلانا ہے۔
سیاسی اتحاد کا خیال ہے کہ مولانا کی قیادت میں تحریک پی ٹی آئی کی حکومت کو مشکل وقت دے گی لیکن حقوق نسواں اور اقلیتوں کے لئے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ انہیں قیادت فضل الرحمان کے ہاتھ میں آنے سے مایوسی ہوئی ہے کیونکہ حزب اختلاف کے اس عمل کی وجہ سے اقلیتیں اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں پی ڈی ایم کی سرگرمیوں سے لا تعلق ہوجائیں گی۔ یوں، ان ناقدین کے مطابق، پی ڈی ایم نے اپنی قبر خود کھود لی ہے۔
خواتین کی برابری کے لئے لڑنے والی پاکستانی سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ فضل الرحمن کا خواتین دشمنی کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے اور حزب اختلاف نے اس ریکارڈ کو نظر انداز کرتے ہوئے مولانا کو یہ اہم عہدہ دے دیا ہے۔ حقوق نسواں کے لئے کام کرنے والی ممتاز کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف نے نہ صرف اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی ہے بلکہ اپنی قبر خود کھود دی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “جے یوآئی ایف ایک قدامت پرست جماعت ہے، جس کے خیالات و نظریات انتہائی عورت مخالف ہیں وہ نہ عورتوں کی برابری پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں آزادیاں دینا چاہتے ہیں۔ ایم ایم اے کی دور حکومت میں کے پی میں جے یوآئی ایف اور دوسری مذہبی جماعتوں نے انتہائی رجعت پرست قوانین بنائے اور بنانے کی کوشش بھی کی۔ ان کے رہنما حمد اللہ نے ایک خاتون ایکٹوسٹ کے خلاف لائیو ٹی وی شو میں انتہائی گھٹیا اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کی۔ اقلیتوں کے مسائل پر بھی ان کا موقف انتہائی سخت گیر ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود پی ڈی ایم کی قیادت انہیں دی گئی، جوبہت انتہائی مایوس کن ہے۔ ہم ایسی تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے“۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جے یوآئی ایف کا اتنا قد کاٹھ نہیں ہے۔ “مولانا کی پارٹی کوئی مین اسڑیم پارٹی نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر ان کو سیٹیں بھی مشکل سے ملتی ہیں۔ اب پی ڈی ایم کی قیادت کے بعد جے یوآئی ایف کا سیاسی قد بڑھے گا لیکن ان کی مذہبی رجعت پرست سیاست کا نقصان خواتین، اقلیتوں اور پاکستانی سماج کو ہوگا۔ میرے خیال میں بلاول اس کے لئے موزوں ہے لیکن اگر شہباز یا کوئی اور بھی ہوتو اس کو تسلیم کیا جا سکتے۔ تاہم مولانا کو کسی طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا“۔
اقلیتی رہنماوں کا کہنا ہے کہ مولانا نے پہلے بھی سیاسی مارچ کیا تھا لیکن اس میں ان کا موضوع صرف مذہبی معاملات اور اقلیت مخالف ایجنڈا تھا، جس کی وجہ سے اقلیتوں میں خوف پیدا ہوا۔ منارٹی الائنس پاکستان کے وائس چیئرمین شمعون الفریڈ گل کا کہنا ہے کہ جب جے یو آئی کی ریلیاں شہروں سے گذریں گی اور وہاں مذہبی نعرے لگیں گے تو اقلیتوں میں خوف پیدا ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کوبتایا، “جے یو آئی ایف کی پالیسیاں سخت گیر ہیں۔ توہین مذہب سمیت کئی قوانین پر ان کی پوزیشن واضح ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کے باوجود انہیں پی ڈی ایم کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔ مین اسٹریم جماعتوں میں موجود منارٹی کے رہنماوں سے کوئی مشورہ بھی نہیں کیا گیا۔ میرے خیال میں بلاول بھٹو کو اس کا سربراہ بنایا جانا چاہیے کیونکہ ان کا مذہبی انتہا پسندی، جبری تبدیلیٴ مذہب اور اقلیتوں سے متعلق دوسرے امور پر دوٹوک موقف ہے“۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پی ڈی ایم چاہتی ہے کہ اقلیتیں اس تحریک کا حصہ بنیں۔ “تو انہیں ایک ضابطہ اخلاق بنانا چاہیے، جس کے مطابق جے یو آئی ایف اور اتحاد میں شامل دوسری جماعتوں کو اس بات کو پابند کیا جائے کہ وہ صرف سیاسی امور اور سویلین بالادستی کے موضوعات پر بات کریں۔ کسی بھی رہنما کو اقلیتوں کے خلاف زہر اگلنے کی بالکل اجازت نہیں دینی چاہیے۔“
جے یوآئی ایف ان اعتراضات کو مسترد کرتی ہے اور اس کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی اتحاد ہے نہ کہ مذہبی۔ پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن جلال الدین نے ڈی ڈبلیو کوبتایا، “ہم توہین رسالت یا ختم نبوت کے مسئلے پر اجتماعات نہیں کر رہے۔ مولانا فضل الرحمن کا مطمعِ نظر صرف آئین کی پاسداری اور سویلین بالادستی ہے۔ آئین پاکستان میں اقلیتوں اور خواتین کے حقوق ہیں، ہم ان کے تسلیم کرتے ہیں۔ فضل الرحمن کی مخالفت مذہب دشمن لوگ کر رہے ہیں۔ ہمارے پروگرام سے اقلیتوں یا خواتین کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس اتحاد میں بلاول بھٹو، نواز شریف، قوم پرست، ترقی پسند اور لبرل سب شامل ہیں“۔
dw.com/urdu