اس سال2020 کا ادب کا نوبل انعام امریکی لکھاری لوئیزا گلک کو دینے کا اعلان ہوا ہے۔ ویسے تو اردو پڑھنے وا لے غیر ملکی لکھاریوں کے متعلق بہت کم علم رکھتے ہیں ۔ اردو والے تو شاید ہی اپنے لکھاریوں کی تحریروں کو پڑھتے ہوں چہ جائیکہ ایک غیر ملکی لکھاری۔ لوئیزا گلک کون ہیں؟جناب شیراز راج نے ان کے متعلق ایک مختصر تحریر میں انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے اور ان کی دو نظموں کا ترجمہ کیا ہے ۔۔۔
دوستو! ہم میں سے کچھ لوگوں نے نوبیل انعام کے بعد ہی لوئیزا گلک پر توجہ دی ہے۔ میں بھی اس کی دریافت کے عمل میں ہوں اور حیرت زدہ ہوں۔ یہ تراجم بے اختیاری میں ہو گئے ہیں، ورنہ کوئی دعوی اس بابت نہیں۔ استدعا ہے کہ انہیں تنقیدی نظر سے دیکھا بھی نہ جائے ورنہ لوئیزا گلک جس طرح مصرعوں کو توڑتی جوڑتی ہے، جس طرح خیال خاموشی میں اور کہی ان کہی میں ملا دیتی ہے،۔۔۔۔اس کا ترجمہ اس روا روی میں تو شاید ممکن نہیں،۔۔۔۔ایسا کرافٹ،۔۔۔۔ایسی جادوگری،۔۔۔۔ گویا سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری۔
یہ نظم تین نظموں میں سے ایک ہے جو ایک کردار پرسی فونی پر بنی گئی ہیں۔ یہ نظم وقت اور ناوقت، حقیقت و التباس، شے اور لاشے، وجود و لاوجود، وصل و ہجر کے درمیانی منطقے میں کہیں پڑی ہے۔ ایک ایسا عہد کہ جہاں رنگ اتر رہے ہیں، پرتیں کھل رہی ہیں، معنی بدل رہے ہیں،۔۔۔پہچان کا اندمال اور اندمال کی پہچان۔ میری آپ کی زندگی میں یہ میدان، یہ تالاب کیا ہے؟ وہ لہر کیا ہے جو بہا لے گئی،۔۔۔۔اور وہ دعا کیا تھی،۔۔۔وہ قبول ہو گئی تھی یا اس کی پاداش میں خجل ہو رہے ہیں،۔۔۔۔ابھی تک۔
بھولپن کی دیومالا
گرمیوں کا ایک دن
وہ میدان میں جاتی ہے، اور ہمیشہ کی طرح،
کچھ دیر کے لیے تالاب میں اپنا عکس دیکھتی ہے،
دیکھوں،۔۔۔۔کوئی تبدیلی،۔۔۔کوئی فرق،
نہیں،۔۔۔۔۔۔اسے وہی کمسن لڑکی ملتی ہے،
جو دختریت کے مہیب چوغہ میں لپٹی ہے،۔۔۔۔ابھی تک
پانی میں سورج بہت قریب نظر آتا ہے
یہ میرا چچا ہے، جو ہر وقت مجھ پر نظر رکھتا ہے
قدرت کی ہر چیز، دور و نزدیک سے، اس کی رشتہ دار ہے
میں کبھی تنہا نہیں ہوتی،۔۔۔وہ سوچتی ہے
اور اس خیال کو دعا بنا لیتی ہے،
دعا مستعجاب ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور موت جلوہ گر ہوتی ہے
کسی کو کیا خبر کہ وہ کس قدر حسین تھا۔
لیکن اسے آج بھی یاد ہے۔
یہ بھی کہ اس نے کیسے آغوش میں لیا تھا،۔۔۔۔یہیں اسی جگہ،
چچا کے سامنے، کہ سورج کی روشنی،
اس کے برہنہ بازؤں کو جگمگا رہی تھیں
یہ آخری منظر ہے جو اسکی یادوں میں باقی ہے
اور پھر سیاہ دیوتا اسے بہا لے گیا
اسے وہ سن کر دینے والی کیفیت بھی، دھندلی سی،۔۔۔۔ یاد ہے،
وہ احساس کہ اب اس سے بچھڑ کے زندہ رہ سکنا ممکن نہ ہو گا۔
وہ لڑکی جو تالاب کنارے گم ہوئی، وہ کبھی نہیں لوٹے گی
ہاں،۔۔۔۔ایک عورت واپس آئے گی خود کو ڈھونڈتی،
اس لڑکی کو ڈھونڈتی، جو کبھی وہ تھی۔
سو اب، گاہے بگاہے، وہ اس تالاب پر آتی ہے
میں اغوا کی گئی تھی،۔۔۔۔وہ سوچتی ہے
لیکن نہیں،۔۔۔۔اس لمحے کا احساس یہ تو نہ تھا۔
نہیں،۔۔۔۔میں اغوا نہیں ہوئی تھی، میں نے خود کو پیش کیا تھا،
میں اپنے جسم سے فرار چاہتی تھی۔
اور کبھی کبھار تو گویا فیصلہ کر چکتی تھی،
لیکن ناسمجھی کبھی بصیرت کی خواہش نہیں کرتی،
وہ ہمیشہ کوئی تصوراتی شے مانگتی ہے،
جو محض اس کے خیال میں وجود رکھتی ہے۔
پھر وہ بہت سے مختلف اسم، ایک ترتیب میں،۔۔۔۔بار بار پکارتی ہے،
موت، شوہر، دیوتا، اجنبی۔
ہر چیز بہت سادہ، بہت روایتی سی لگتی ہے
میں ایک عام سی لڑکی ہی ہوں گی
وہ خود کو،۔۔۔۔اس لڑکی کو یاد نہیں کر پاتی
لیکن اسے لگتا ہے کہ تالاب کو ضرور یاد ہو گا
اور وہی بتائے گا کہ اس کی دعا کا مطلب کیا تھا
تاکہ وہ ٹھیک طرح سے سمجھ سکے کہ وہ دعا قبول ہوئی تھی،۔۔۔۔یا نہیں۔
لوئیزا گلک کی درج ذیل نظم بھی ایک طرح کی بیگار محبت،۔۔۔۔ہر لفظ، ہر مصرعے میں گندھی سنسنی، اور آخر کار ایک ناگزیر احساس شکست،۔۔۔احساس زیاں،۔۔۔۔۔جسے لامحالہ ایک سمجھوتہ تسکین دیتا ہے کہ بھائی،۔۔۔۔یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں۔ سو، پڑھ لیجئے کہ وہ کہانی جو پرسی فونی کے بھولپن کی دیو مالا تھی،۔۔۔۔اس کا ایک اور زاویہ بھی ہے،۔۔۔۔دیوتا ہیڈس کے عشق کی دیو مالا۔
یہ نظم عجیب طرح سے کھل رہی ہے۔ روح میں گہری اتری تنہائی ،ان میں رچے خوابوں، فرسودہ جوئے اتار پھینکنے اور انجانے دیسوں کے سفر کی خواہش، نئی دنیائیں تعمیر کرنے کی تمنا اور پھر،۔۔۔۔۔حقیقت کا آئینہ کہ یہ آدم زادوں کی دنیا نہیں جہاں رشتے خالص جھوٹ پر استوار ہو سکتے ہوں،۔۔۔اور نبھ سکتے ہوں،۔۔۔۔۔اس متبادل دنیا میں محبت بھی ہے،۔۔۔اور سچ بھی،۔۔۔۔جو رشتوں کی زیادہ بھروسہ مند بنیاد ہے۔
عاشقی کی دیومالا
جب دیوتا ہیڈس نے فیصلہ کیا کہ ہاں،۔۔۔
اسے عشق ہے اس آدم زاد لڑکی سے
اس نے ایک متبادل دنیا بنائی،۔۔۔۔۔پرسی فونی کے لیے
ہوبہو ویسی، ایک ایک چیز وہی،۔۔۔مرغزار سمیت
بس ایک بستر کے اضافے کے ساتھ
سب کچھ وہی،۔۔۔سورج کی روشنی بھی،
ورنہ ایک بھولی بھالی، نوجوان لڑکی کے لیے کتنا مشکل ہوگا
آنا فانا شدھ اجالے سے خالص اندھیرے میں اتر جانا
اس نے سوچا، وہ دھیرے دھیرے، مرحلہ وار،۔۔۔۔۔
گہری شب سیاہ آشکار کرے گا
پہلے پہل، ہوا میں لہراتے پتوں کے سائے،۔۔۔پھر چاند اور پھر ستارے۔
پھر نہ چاند اور نہ ستارے،۔۔۔۔۔
اسے رفتہ رفتہ اندھیرے کا عادی ہونا چاہیے۔
پھر وہ اسی میں سکھ محسوس کرنے لگے گی۔
ذمین کی ہوبہو نقل،۔۔۔بس ایک فرق کہ یہاں محبت بھی ہے
تو کیا ہر کوئی محبت کی خواہش نہیں رکھتا؟
اس نے کئی برس انتظار کیا،۔۔۔۔۔دنیائے نو کی تعمیر کرتے،
پرسی فونی کو مرغزار میں دیکھتے رہتے ۔
اور پرسی فونی،۔۔۔۔سونگھنے کی رسیا،۔۔۔۔چکھنے کی دلدادہ
دیوتا نے سوچا، تمنا اگر ایک بھی ہو، تو لامحالہ سبھی کچھ مل جاتا ہے
کیا ہر کوئی رات بھر محسوس کرنا نہیں چاہتا؟
اپنے محبوب کا جسم، قطب نما، قطبی ستارہ
اور نرم سانسوں کی سرگوشی،۔۔۔۔
کہ سنو، میں زندہ ہوں،۔۔۔۔۔یعنی تم بھی زندہ ہو،
کیونکہ تم میری بات سن سکتے ہو،
اور تم،۔۔۔۔۔۔تم یہاں میرے ساتھ ہو،۔۔۔۔۔رات بھر
کہ جب ایک دھڑکتا ہے تو دوسرا بھی،۔۔۔۔
جب ایک سلگتا ہے تو دوسرا بھی،۔۔۔۔۔
جب ایک سرکتا ہے،۔۔۔۔۔۔تو دوسرا بھی۔
ارے وہ خدائے تیرگی،۔۔۔۔۔
یہی تھا اس کا احساس،۔۔۔۔۔۔
اس دنیا کو دیکھتے ہوئے جو اس نے پرسی فونی کے لیے تعمیر کی۔
لیکن ایک بات وہ سوچ ہی نہ سکا کہ یہاں،۔۔۔۔۔اس نئی دنیا میں
وہ کچھ بھی سونگھ نہ پائے گی، کچھ بھی چکھ نہ سکے گی۔
احساس جرم؟،۔۔۔۔دہشت؟۔۔۔۔۔محبت کا خوف؟
ان کا تصور وہ نہ کر سکا
کوئی عاشق ان کا تصور کر بھی نہیں سکتا۔
وہ خوابوں اور سوالوں میں کھو جاتا ہے،۔۔۔۔اس جگہ کو کیا نام دوں؟
پہلے وہ سوچتا ہے، جہنم نو،۔۔۔۔۔۔پھر، مرغزار،۔۔۔۔۔۔۔
آخر کار، وہ ایک نام کا فیصلہ کرتا ہے،۔۔۔۔پرسی فونی کا لڑکپن
ہموار مرغزار پر، بستر کے عقب میں، طلوع ہوتی نرم روشنی
وہ اسے پانہوں میں بھر لیتا ہے۔
وہ کہنا چاہتا ہے،۔۔۔۔پرسی فونی، میں تم سے محبت کرتا ہوں،۔۔۔
تمہیں کوئی دکھ نہیں پہنچ سکتا۔
لیکن پھر وہ سوچتا ہے،۔۔۔۔۔یہ جھوٹ ہے،
آخر کار، وہ کہتا ہے
پرسی فونی، تم مر چکی ہو،۔۔۔تمہیں کوئی دکھ نہیں پہنچ سکتا
اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بات
اس رشتہ کی نسبتا ٹھوس، اور بھروسہ مند شروعات ہے،
اور زیادہ سچی بات ہے۔
لوئیزا گلک
ترجمہ، شیراز راج