لیاقت علی
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے ایک بھارتی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے بھارت سے مذاکرات کے لئےجوشرائط پیش کی ہیں۔انہیں سن کرلگتا ہے کہ معاون خصوصی نے محض پوائنٹ سکیورنگ کے لئے ایسا کیا ہے کیونکہ کسی با مقصد اور بامعنی دوطرفہ تعلقات کی استواری کے لئے پیش کردہ یہ شرائط بنیاد کا کام نہیں دے سکتیں۔
یہ شرائط میڈیا اور وہ بھی پاکستانی میڈیا میں تو واہ واہ کا انتظام کرسکتی ہیں دنیا کے سفارتی محاذ پر ان کوکوئی لفٹ نہیں کرائے گا۔ ان شرائط میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کےتمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، فوجی محاصرے کا خاتمہ اورآبادی کے تناسب کی تبدیلی کے نافذ قانون کا خاتمہ شامل ہیں۔ڈاکٹر معید یوسف نے یہ شرا ئط بھارتی نیوز ویب سائٹ دی وائیر کے کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے پیش کی ہیں۔
کسی تنازعہ کے فریقین کے مابین تصفیہ کے لئے شرائط پیش کرنے کا مرحلہ اس وقت درپیش ہوتا ہے جو فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی خواہش کا اظہاربراہ راست یا کسی سہولت کارکے ذریعےکریں۔ پاکستان اوربھارت کےمابین براہ راست سفارتی روابط نہ ہونے کے برابر ہیں۔دونوں ممالک نےسفارتی عملہ انتہائی کم کردیا ہوا ہے۔جہاں تک تعلق ہےکسی تیسرے کی سہولت کاری کو تو بھارت شروع دن سے ہی کسی تیسرے فریق کی مصالحت کاری تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
بھارت کی طرف سے ابھی تک بظاہرایسا کوئی سگنل موصول ہوا نہیں لگتا جس سے یہ ظاہر ہو کہ بھارت پاکستان سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔اب تک کی صورت حال سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات کی خواہش کا اظہار پاکستان کی طرف سےزیادہ ہورہا ہے ہےجب کہ بھارت مذاکرات کی میز پر آنے سے گریزاں ہے۔
معاون خصوصی قومی سلامتی کی پیش کردہ شرایط پرایک نظر ڈالنے ہی سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان اوربھارت کے مابین مذاکرات ہونے کا اامکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ شرایط ایسی ہیں جنھیں بھارت کسی صورت قبول نہیں کرے گا اور پاکستان ان شرایط کو منوائے بغیر بقول معاون خصوصی قومی سلامتی بھارت سے کسی صورت مذاکرات نہیں کرے گا۔ تو اس کا مطلب ہوا یہ ہوا کہ مذاکرات کی میز پر فریقین کے بیٹھنے کا کوئی امکان نہیں ہے
اگست 2019 میں بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارتی یونین میں ضم کرلیا تھا۔ اس مقصد کے لئے اس نےاپنے آئین اور متعلقہ قوانین میں بھی ضروری ترامیم کرلی ہیں۔ کیا بھارت کی بی جے پی سرکار یا اس کے بعد آنے والی کوئی حکومت یہ رسک لی سکے گی کہ کشمیر کے انضمام سے متعلق آئینی شقوں کو ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو دوبارہ بحال کردے۔ قرائن سے لگتا ہے کہ ایسا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔بھارت کی کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسا کبھی نہیں کرے گی کہ کشمیرکو ایک بارپھرخصوصی حیثیت دے دے۔یہ اب کبھی نہیں ہوگا۔
بھارت پراس حوالے سے بین الاقوامی سطح پرویسےبھی کوئی دباو نہیں ہے۔ بڑی طاقتیں ہوں یا مسلمان ممالک کا بلاک کسی ایک نے بھی بھارت کے اس اقدام کی مذمت اور مخالفت نہیں کی تھی۔ ہمارے وزیر خارجہ کے مطابق ماسوائے ترکی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی بین الاقوامی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مسلمان ممالک نے پاکستان کی حمایت کرنے کی بجائے خاموشی سے کشمیر پر بھارت کے اقدامات کی تائید کی ہے۔ ایسی صورت حال میں جب بھارت پراس اقدام کو اٹھانے پرکوئی دباو ہی نہیں ہے تووہ پاکستان کی شرایط کو کیوں مانے گا۔پھر پاکستان سے اس کے کون سے مفادات وابستہ ہیں جن کے لئے وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے اور وہ بھی پاکستان کی شرائط پر؟۔
ایک وقت تھا جب بھارت پاکستان کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیا سے تجارت کا خواہاں تھا اور پاکستان سے اس حوالے سے مذاکرات بھی کرنا چاہتا تھا لیکن بھارت نے اس مسئلے کا حل براستہ ایران تلاش کرلیا ہے۔ بھارت کے ایران کے ساتھ تعلقات پاکستان کی نسبت زیادہ بہتراوردوستانہ ہیں۔
مستقبل قریب یا بعید میں پاکستان اور بھارت کے مابین جب کبھی بھی مذاکرات ہوں گے وہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانے پر ہی ہوں گے۔کشمیراوروہاں استصواب رائے اور کشمیرکی خصوصی حیثیت کی بحالی اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ اس سراب کے پیچھے دوڑنے کی بجائے پاکستان کو جتنی جلدی ہو سکے زمینی حقایق کا ادراک کرلینا چاہیے۔ حقیقت پسندی کا یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کے تحفظ،، سالمیت اورپاکستان کے عوام کی خوشحالی اور ترقی کی طرف جاتا ہے۔ باقی سب آپشن بربادی اور تباہی کے نشان ہیں۔
♣