ظفر آغا
مندر، مسجد، گرجا، گرودوارے ‘ایشور اللہ تیرو نام‘ کی گواہی دیتے ہیں لیکن ہندو سماج ہزاروں سال پرانی فراخدلی چھوڑ کر بی جے پی کی ہندوتوا سیاست کا شکار ہو کر خود اپنی روایت کو بالائے طاق رکھنے پر آمادہ ہے۔
صاحب، کوئی کتنا چھپا لے حقیقت آخر حقیقت ہوتی ہے اور آخر عیاں ہو ہی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سنگھ اور بی جے پی کو اس ملک کے آئین سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس ملک کا آئین اس ملک کے ہر شہری کو بلاتفریق مذہب و ملت برابری کا درجہ دیتا ہے اور باقاعدہ کھل کر یہ اعلان کرتا ہے کہ ہندوستان ایک ‘سیکولر اور سوشلسٹ ریپبلک‘ ہے۔
ظاہر ہے کہ سنگھ اور بی جے پی کو یہ کہاں برداشت۔ ان کو تو ہندو راشٹر چاہیے۔ مسلمان اور دوسری اقلیتوں کو بھلے کہاں اور کیونکر برابر کا شہری تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ بس اسی سبب سنگھ و بی جے پی اس ملک کے آئین سے پریشان تھے۔ لیکن یہ بات ابھی تک اشاروں اور کنایوں میں تو کہی جاتی تھی لیکن کھل کر نہیں بیان ہوتی تھی۔ لیکن عرض کیا نا کہ آخر حقیقت کھل کر آگے آتی ہی ہے۔ چنانچہ ابھی پچھلے ہفتے سنگھ اور بی جے پی دونوں کی آئین منافرت و منافقت کھل کر سامنے آ ہی گئی۔
صوبہ مہاراشٹر میں پچھلے ہفتے جو ہوا اس سے تو آپ بخوبی واقف ہی ہوں گے۔ پھر بھی یاد دہانی کے لیے عرض کر دوں کہ مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری نے صوبہ کے وزیرا علیٰ ادھو ٹھاکرے کو ایک مکتوب میں لکھا کہ “کیا آپ ہندوتوا بھول گئے اور کیا اب آپ بھی باقاعدہ سیکولر ہو گئے۔” گویا سیکولر ہونا اس ملک میں اب ایک گالی ہو گئی۔ جی ہاں، کوشیاری صاحب کے لیے تو سیکولرزم یعنی ہندوستان کی گنگا–جمنی وراثت ایک گالی ہی ہے۔ کیونکہ موصوف آر ایس ایس سے تعلق رکھتے ہیں اور خود بی جے پی کی جانب سے صوبہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ یعنی کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا۔
ظاہر ہے کہ حضرت کو سیکولرزم سے کس قدر نفرت ہوگی! آخر کوشیاری جی کے دل کا وہ زہر ادھو کے نام مکتوب میں چھلک اٹھا اور وہ بات جو اب تک دل ہی دل چھپی تھی اب منظر عام پر آ گئی۔ ذرا غور کیجیے، گورنر ایک آئینی عہدہ ہے جس کا اولین فریضہ اپنے صوبہ میں آئین کی نگرانی ہوتا ہے۔ کوشیاری جی کو بخوبی علم ہے کہ لفظ سیکولر اس ملک کے آئین کا ستون ہے۔ لیکن پھر بھی ادھو کا سیکولرزم کی جانب جھکاؤ ان کے لیے گویا گناہ ہو گیا۔ تب ہی تو انھوں نے وزیر اعلیٰ اور ادھو ٹھاکرے کو سیکولر ہونے کا طعنہ دے دیا۔
خیر خوشیاری صاحب تو سنگھ کی آغوش میں پلے بڑھے ہیں۔ ان کو اگر سیکولرزم سے پرخاش ہے تو یہ بات کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن اس ملک کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے کہ ایک آئینی عہدے پر بیٹھا شخص اتنا بڑا گناہ کرے اور دو،چار ہوں ہاں کے بعد سب خاموش بیٹھ رہیں۔ جی ہاں، مودی کا ہندوستان محض چھ برسوں میں اتنا بدل جائے گا کہ وہ خود اپنی سینکڑوں سال پرانی صدرنگی گنگا جمنی تہذیب اور روایات بالکل ہی بھول جائے گا اس پر ضرور حیرت ہوتی ہے۔ ارے کیا یہ وہی گوتم، رام، نانک اور چشتی کا ہندوستان ہے جہاں مندروں کے گھنٹے، مسجدوں کی اذان، گرودوارے کا کیرتن اور چرچوں کی گھنٹیوں کی آوازیں مل کر روز گاندھی کے اس بھجن کی گواہی دیتی ہے کہ ‘اللہ ایشور تیرو نام‘۔
کیا اس ملک کی ہندو اکثریت محض چھ برسوں میں اس قدر بدل گئی کہ اس کو بھی اب ہندو راشٹر ہی چاہیے ہے۔ کم از کم ابھی تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کی ہندو اکثریت کے ذہنوں پر مسلم منافرت کا بخار چڑھ چکا ہے۔ مودی نے کچھ ایسا جادو کیا ہے کہ اب اس کو اپنی تباہی کا احساس نہیں، بس اس کو تو ایک ایسی حکومت چاہیے جو اس ملک کے مسلمان کو ‘ٹھیک‘ کر سکے۔
بھائی ضرورت تو اس بات کی ہے کہ خود ہندو سماج کے لیے اب سوچنے کا وقت آ گیا ہے کہ وہ اس سوال کا جواب تلاش کرے کہ سنگھ، بی جے پی اور مودی کی ہندوتوا سیاست آیا اس کے حق میں ہے بھی کہ نہیں۔ اس حقیقت سے قطعاً اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان ازل سے اب تک ایک ہندو اکثریت والا ملک رہا ہے اور رہے گا۔ تب ہی تو اس ملک کی تہذیب پر سب سے گہرا اثر ہندو دھرم و روایات کا رہا ہے۔
لیکن خود ہندو مذہب و سماج دونوں کا دامن ہمیشہ اتنا وسیع رہا ہے کہ اس باہر سے آنے والے دوسرے مذاہب اور رسم و رواج کو بھی اپنے میں جگہ دی اور ان کو تسلیم کیا۔ تب ہی تو یہاں بیک وقت مندر، مسجد، گرجا، گرودوارے ‘اللہ ایشور تیرو نام‘ کی گواہی دیتے ہیں۔ لیکن وہی ہندو سماج اب اپنی ہزاروں سال پرانی فراخدلی چھوڑ کر بی جے پی کی ہندوتوا سیاست کا شکار ہو کر خود اپنی تہذیبی روایت کو بالائے طاق رکھنے پر آمادہ ہے۔
جیسا ابھی عرض کیا کہ یہاں تو ہندو اکثریت کا ہمیشہ دبدبہ رہا۔ حد یہ ہے کہ کوئی آٹھ سو برس جب یہاں مسلم حاکم رہے تب بھی ہندو اکثریت کی تہذیب برقرار رہی۔ اور آزادی کے بعد سے اب تک ملک کی سیاست، معیشت، تہذیب، کلچر اور ہر شئے پر ہندو اکثریت ہی چھائی ہوئی ہے۔ جس مسلم دشمنی کے نام پر نریندر مودی حکومت چلا رہے ہیں، وہ بیچارہ تو کب سے اس ملک میں بے حیثیت ہے۔ فسادوں کا مارا مسلمان تو سڑکوں کے کنارے پنکچر بنا کر، ریڑھی پٹری کی دکانوں پر سامان بیچ کر اور بہت سے بہت کاریگری کر اپنی زندگی گزار رہا ہے۔
بی جے پی جب چاہے مجمع اکٹھا کرے اور بابری مسجد گرا دے۔ وی ایچ پی کے اشارے پر گجرات جیسے فساد بپا ہو جائیں۔ اس کو ایک آئینی برابری کا حق تھا وہ بھی آپ شہری قانون میں ترمیم کر چھیننے کو تیار ہیں۔ لب و لباب یہ کہ اس ملک کی سیاست، معیشت، کھیتی باڑی، نوکریوں، صنعت و حرفت ہر شئے میں اس ملک کی 80 فیصد ہندو آبادی کا قبضہ اور اس کی ملکیت ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے۔ اب اس پس منظر میں ذرا پچھلے چھ برسوں میں نریندر مودی کی ہندوتوا سیاست کا ملک اور ہندو سماج پر اثر دیکھیے۔ اس معاشی سال کی پہلی سہ ماہی یعنی اپریل تا جون کے معاشی اعداد و شمار کے مطابق اس ملک کی معیشت تقریباً 24 فیصد گھٹ گئی۔ یعنی اس ملک کی تقریباً چوبیس فیصد آبادی سڑکوں پر آ گئی۔ ظاہر ہے کہ اس ملک کے وہ 24 فیصد گھرانے جو تباہ و برباد ہوئے ان میں سے کم از کم 20 فیصد ہندو ہوں گے۔
پھر معاشی ماہرین کا قیاس یہ ہے کہ ابھی کم سے کم اس ملک کی معیشت کوئی 10 فیصد اور گھٹے گی۔ یعنی کم از کم 8 فیصد ہندو گھرانے ابھی اور سڑکوں پر آ جائیں گے۔ یہ ہے مودی جی کا تحفہ ہندو سماج کو۔ ذرا غور کیجیے کوئی 35 سے 40 فیصد آبادی بے سر و سامانی کے عالم میں پہنچ گئی۔ ارے بھائی اس لاک ڈاؤن میں کروڑوں کام دھندے بند ہو گئے، کئی کروڑ افراد نوکریوں سے نکال دیے گئے۔ اگر سو کام کاج اور دھندے اس دوران ٹھپ ہوئے تو ان میں سے 80 تو ہندو کے رہے ہوں گے۔ اگر سو نوکریاں ختم ہوئیں تو کم از کم 80 ہندو افراد یعنی 80 ہندو گھرانوں کے پیٹ پر لات پڑی ہوگی۔ پھر پہلے نوٹ بندی میں بھی 80 فیصد نقصان ہندو سماج کا ہی ہوا، باقی سب تو نمک کے برابر تھے۔
اب بتائیے یہ ہندوتوا کی سیاست کس کو کھائے جا رہی ہے! کون ہے جو مودی کی مسلم منافرت کا اصل شکار ہو رہا ہے! سیدھی سی بات ہے کہ ہندوتوا نے پچھلے چھ برسوں میں ہندو سماج کی کمر توڑ دی۔ اور اگر یہی حال رہا تو جیسی رپورٹ آئی ہیں کہ ترقی کی راہ میں ہندوستان جلد ہی بنگلہ دیش سے بھی پیچھے چلا جائے گا، ان حالات میں بس یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ خدا عام ہندو کو عقل دے تاکہ اس کی آنکھیں کھلیں اور ہندوستان و ہندو سماج دونوں کو ہندوتوا سے نجات ملے۔ کیونکہ ہندوتوا سیاست کا سب سے بڑا شکار خود ہندو سماج ہے۔
بشکریہ:قومی آواز، نئی دہلی