بیرسٹرحمیدباشانی
آجکل ہرجگہ گلگت بلتستان کےمستقبل کےسوال پرگفتگو ہورہی ہے۔ یہ گفتگو صرف گلگت بلتستان کےاندرمحدود نہیں ہے۔ اس کا دائرہ گلگت سےباہرسابق ریاست جموں کشمیرکےعلاوہ پاکستان اوراس سےبھی باہر دوردورتک پھیلاہواہے۔ پاکستان کےایوان اقتدار سے لے کرمختلف سیاسی پارٹیوں کےفیصلہ سازاداروں تک حالیہ دنوں اورہفتوں کےدوران گلگت بلتستان پربات چیت ہوتی رہی ہے۔
گلگت بلتستان بھارت کی راج دھانی میں بھی زیربحث رہا ہے۔ پاکستان میں ان علاقوں کوصوبہ بنانےکےحوالےسے ہونے والےصلا ح ومشورےکی خبربھارتی میڈیا کےاندرایک بڑی بریکنگ نیوزرہی ہے۔ عام دھارےکےمیڈیا کےعلاوہ سوشل میڈیا پربھی یہ” ٹرینڈنگ “موضوعات میں سےایک رہا ہے۔ بھارتی راجدھانی میں بحث ومباحثےکےبعد پاکستان کی طرف سےگلگت بلتستان کوصوبہ بنانےکی تجویزپرردعمل دیتےہوئےبھارتی حکام نے یہ کہاکہ گلگت بلتستان سابق مقبوضہ ریاست جموں کشمیرکا حصہ ہے۔ اورچونکہ سابق ریاست جموں کشمیرہمارااٹوٹ انگ ہے، لہذااس منطق کےتحت گلگت بلتستان بھی ہماراہے، جسے پاکستان اپنا صوبہ نہیں بناسکتا۔
علاقائی سطح کےعلاوہ عالمی سطح پربھی گلگت بلتستان پرگفتگوہوئی ہے۔ اس پرکئی مذاکرے اورکانفرنسیں ہوئی ہیں۔ مگرعالمی سطح پر سب سے اہم گفتگو امریکہ کی سنیٹ کی آرمڈ سروسزکمیٹی میں ہوئی ہے، جہاں امریکہ کےسیکریٹری دفاع جمیزمیٹس نےسی پیک کے بارے میں بات کرتےہوئےکہا کہ سی پیک کا روٹ گلگت بلتستان سےہوکرگزرتا ہے ، جوپاکستان کےموقف کےمطابق متنازعہ اور گیر قانونی طورپر مقبوضہ ریاست جموں کشمیرکا حصہ ہے۔
گلگت بلتستان کی صورت حال اوراس کےمستقبل پرہونی والی یہ بحث نئی نہیں ہے۔ ان علاقوں کے مستقنل کےتعین کی بحث گلگت بلتستان کے اندرتوگزشتہ سترسال سےکسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ لیکن کچھ خاص خاص ادوارمیں یہ بحث کافی زوربھی پکڑتی رہی ہے۔ سترکی دہائی میں ذولفقارعلی بھٹو کی ان علاقوں میں ذاتی دلچسبی اور خاص توجہ کی وجہ سے اس بحث میں کافی تیزی آئی تھی۔ ذولفقارعلی بھٹوگلگت بلتستان کےمستقبل کےسوال میں گہری دلچسبی رکھتےتھے۔ اس حوالے سےانہوں نےگلگت بلتستان کےاندرسٹیٹ سیبجکٹ قانون، اورانسانی حقوق کےحوالے سے جو اقدامات کیے تھے، ان کی وجہ سے یہاں کےمقامی حلقوں اورسابقہ ریاست جموں کشمیر کےدیگر حصوں میں اس پربہت گرما گرم بحث ہوتی رہی۔
آگے چل کر1974میں ذولفقارعلی بھٹونے ان علاقوں سےایف سی آرکےخاتمےکا اعلان کیا ، اوران علاقوں کا نام بدل کران کوپاکستان کے شمالی علاقہ جات یا “نادرن ایریازآف پاکستان” کا نام دےدیا ۔ نوے کی دہائی میں بےنظیربھٹو کی طرف سےان علاقوں کےبنیادی انسانی اورجمہوری حقوق پرتشویش ظاہرکرتے ہوئے یہ وعدہ کیا گیا کہ نہ صرف ان علاقوں کوان کےبنیادی انسانی حقوق اورشہری آزادیاں دی جائیں گی، بلکہ ان کی قانونی وآئینی حثیت کا تعین بھی کیاجائےگا۔
بعد ازاں اکیسویں صدی کےاوائل میں پاکستان کی مختلف وفاقی حکومتوں کی طرف سےگلگت بلتستان کے بارے میں اٹھائےگئےاقدامات کی وجہ سےان علاقوں کےمستقبل پربحث جاری رہی۔ اوراس کی آئینی حیثیت کے بارے میں مختلف آپشنززیربحث آتےرہے۔ سال 2009میں گلگت بلتستان کےبارے میں سیلف گورننس آرڈرپاس کیا گیا، جس کا بیان کردہ مقصد ان علاقوں کوجمہوری حقوق دینےکےساتھ ساتھ ، ان علاقوں کی آئینی حیثیت کا تعین کرنا بھی تھا۔ اس عمل کےنتیجےمیں گلگت بلتستان میں دیگرصوبوں کی طرزپرقانون سازاسمبلی، گلگت بلتستان کونسل، وزیراعلی اورگورنروغیرہ کےعہدے تخلیق کیےگئے۔ اس طرح ان علاقوں کوباقاعدہ صوبہ بنائےبغیرایک صوبہ نما “سیٹ اپ” دینےکی کوشش کی گئی۔
مگراس اقدام سےنہ توان علاقوں کی آئینی حیثیت کا ٹھوس تعین ہوسکا اورنہ ہی مقامی لوگوں میں یہ “سیٹ اپ” قابل ذکرمقبولیت حاصل کرسکا۔ ایک بارپھریہ “سیٹ اپ” آگےچل کر2018 میں ایک صدارتی حکم کےذریعے بدل دیا گیا۔ اس صدارتی آرڈیننس کےتحت گلگت بلتستان قانون سازاسمبلی کوگلگت بلتستان اسمبلی کا نام دے دیا گیا۔ گلگت بلتستان کونسل کی حیثیت بدل کراس کومشاورتی کونسل کا درجہ دیا گیا۔ پاکستان کی وفاق کےساتھ اختیارات کی تقسیم کےفارمولےکےتحت گلگت بلتستان اسمبلی کومرکزی فہرست میں شامل اڑسٹھ معاملات کےعلاوہ تمام معاملات پرقانون سازی کرنےکا اختیاردےدیا گیا۔
مگربد قسمتی سے اس سے بھی اس خطے اور یہاں کے عوام کا مسئلہ حل نہ ہوسکا اورگلگت بلتستان کےلوگوں کے جمہوری حقوق اوران کے مستقبل کا سوال بدستورموجود رہا۔ موجودہ حکومت نے اس سوال کا جواب گلگت بلتستان کوپاکستان کا عارضی یا مستقل طورپرپانچواں صوبہ بنانےکی تجویزکی شکل میں پیش کیا، جس پراس وقت بحث جاری ہے،اوراس پر مختلف مکاتب فکراپنا ردعمل دے رہےہیں۔
گلگت بلتستان کے مستقبل کےسوال پربات کرتے ہوئےجوعنصرسب سے زیادہ زیربحث آتا ہے، وہ تاریخ ہے۔ تاریخ کوزیربحث لانے والوں کاخیال ہےکہ ان علاقوں کےمستقبل کا تعین کرنےسےپہلےیہ دیکھنا ضروری ہے کہ تاریخی اعتبارسے یہ علاقے کس کا حصہ تھے، تاکہ اس تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائےکہ ان کا مستقبل کیاہوناچاہیے۔ مگربد قسمتی سےتاریخ اس باب میں کوئی زیادہ مددگارنہیں ہے۔ اگرچہ اس باب میں بہت معلومات موجودہیں۔ چیلاس، ہنزہ، گلگت ، سکردواوردوسرےکئی علاقوں کے قدیم تاریخی مقامات اورآثارقدیمہ سےملنے والے پھتروں پرلکھی گئی تحریروں سےان علاقوں کی قدیم تاریخ پربہت دورتک روشنی پڑتی ہے۔
بدھ مت تحریروں اورٹیکسٹ کی تلاش میں چینی تاریخ دان فیکیسن گندھاراجاتے ہوئےان علاقوں سےگزرا اوران علاقوں میں ٹھہراہے۔ اس کی تحریروں سےبھی ان علاقوں کی تاریخ کےبارے میں جانکاری ملتی ہے۔ ساتویں صدی میں یہ علاقےتبت کی سلطنت کےزیرنگین تھے۔ مگراس میں کوئی عجیب بات نہیں کہ اس وقت تبت کی یہ سلطنت وسطی ایشیا سےلیکرنیپال اوربرماتک پھیلی ہوئی تھی۔ بارہویں اورتیرہویں صدی میں یہ علاقےاسلامی سلطنتوں کےزیراثرآئے۔ سکھ سلطنت کےابھرنےکی وجہ سےیہاں سےاسلامی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ بعد میں انگریزوں کےہاتھوں سکھوں کی شکست کے بعد یہ علاقے ریاست جموں کشمیرکےڈوگرا حکمرانوں کی عملداری میں چلےگئے۔
تاریخ کے حوالے سےایک غالب مکتب فکرکا خیال ہےکہ جسے ہم گلگت بلتستان کہتے ہیں، یہ کئی ایک چھوٹی موٹی ریاستوں اورجاگیروں کا مجموعہ ہے۔ یہ ریاستیں مختلف تاریخی ادوارمیں کبھی توبالکل خودمختاررہی ہیں۔ کبھی ان کا ایک دوسرے پرقبضہ، اورگاہے ادغام، اورانضمام ہوتارہا ہے۔ یہ عمل ان دنوں چھوٹی موٹی ریاستوں اورعلاقوں کےمعاملےمیں عام تھا۔بیرونی حملوں اورفتوحات کےنتیجے میں یہ علاقے قدیم چینی ، افغان، مغلیہ ، سکھ، انگریزاوردیگرسلطنتوں کےساتھ جڑتےاورالگ ہوتے رہے۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں گلگت اورگردونواع کے کچھ علاقے ریاست جموں کشمیرکا حصےبنے۔
سنہ 1947 میں انگریزوں کےبرصغیرسےنکلنےکے وقت یہ علاقے ریاست جموں کشمیرکا حصہ تھے، جن کوانگریزوں نےلیزپرلیاہواتھا۔ یہ لیزختم ہونےکےبعد یہ علاقے واپس ریاست جموں کشمیرکےپاس چلےگئے۔ یکم اگست کو مہاراجہ ہری سنگھ نے گھنساراسنگھ کواپنا گورنربناکریہاں تعینات کردیا۔ چودہ اورپندرہ اگست کواعلان آزادی کےبعد ریاست جموں کشمیرکےعلاوہ ہنزہ اورنگرکی ریاستوں نے بھی اپنے مستقبل کا کوئی فیصلہ نہیں کیا اوران کی حیثیت جوں کی توں رہی۔ یکم نومبرکومقامی لوگوں نےمہاراجہ حکومت کےخلاف بغاوت کرکہ اپنی حکومت قائم کردی۔ مہاراجہ کےخلاف انگریزآفیسرمیجربراون کی قیادت میں گلگت سکاوٹس نےبھی بغاوت کردی۔
دوہفتوں تک مقامی حکومت قائم رہنےکےبعد پاکستان کی طرف سےصوبہ سرحد کےگورنرنےیہاں پولیٹیکل ایجنٹ تعینات کردیا۔ بعد میں 1949 میں حکومت آزاد جموں وکشمیراورحکومت پاکستان کےدرمیان معاہدہ کراچی کےتحت ان علاقوں کا انتظام حکومت پاکستان کےسپردکردیا گیا۔ تاریخی اعتبارسےگلگت بلتستان کودوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک حصہ وہ ہے ، جس کوگلگت ایجنسی کہاجاتا تھا۔ ایجنسی کے زیرانتظام علاقےبراہ راست انگریزوں کے زیرنگیں رہے۔
یہ ایجنسی 1899 میں قائم ہوئی۔ اس ایجنسی کےاندرچیلاس، کوہ خضر، اشکومن، اوریاسین وغیرہ کےعلاوہ ریاست ہنزہ اورنگرکی ریاستیں شامل تھیں۔ اوردوسرا گلگت وزارت تھی۔ جس میں گلگت شہرکےعلاوہ دوسرے چھوٹےعلاقےشامل تھے، جوریاست جموں کشمیرکاحصہ تھے۔ انگریزوں کےنکلتےوقت ریاست جموں کشمیرنےگلگت اورکچھ دیگرملحقہ علاقے واپس لےلیے، جبکہ ہنزہ اورنگرنےخودمختاری کااعلان کردیا۔ دونوں ریاستوں کوبعدمیں پاکستان میں شامل کردیا گیا۔
گلگت بلتستان کواس تاریخی تناظرمیں دیکھتےہوئے یہ امرعیاں ہےکہ تاریخی، ثقافتی، اورانتظامی اعتبارسے ان علاقوں میں تنوع اور رنگارنگی موجود رہی ہے، جس کوان علاقوں کےمستقبل کافیصلہ کرتے وقت محلوظ خاطررکھنا ضروری ہے۔ مگراہم بات یہ ہےکہ یہاں کہ لوگ آج کیا چاہتے ہیں ؟ ان علاقوں کےمستقبل کےتعین کاغیرمشروط حق صرف یہاں کےعوام کوحاصل ہے۔ ان کےمستقبل کے سوال پریہاں کےعوام کی ایک مسلمہ جمہوری طریقےسے آزادانہ رائےلینا لازم ہے۔ رائےدہی کا یہ عمل غیرمشروط اورعالمی سطح پرتسلیم شدہ جمہوری اصولوں کےمطابق ہونا چاہیے۔ مستقبل کی کسی بھی آئینی تشکیل میں اس امر کویقینی بنایا جائےکہ یہاں کےعوام کوجمہوری انسانی حقوق اورشہری آزادیوں کی ضمانت دی جائے۔
♦