سولہ دسمبر 2014 کو پشاور میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیاجب دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول میں گھس کر 150 سے زائد بچوں کو شہید کردیا تھا۔ پورے ملک میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ پاکستانی ریاست نے بلندو بانگ دعوے کیے اور مجرموں کو کڑی سزائیں دینے کا اعلان کیا اور اسی زور و شور میں ملٹری کورٹس کا قیام بھی کروا لیا۔ لیکن آج اس سانحے کو گذرے چھ سال ہوچکے ہیں مجرم سر عام گھوم رہے ہیں اور ریاست خاموش ہے۔
سولہ دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ بنیادی طور پر پاکستان آرمی کے اندر دو دھڑوں کے درمیان ہونے والی لڑائی کی وجہ سے ہوا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آرمی پبلک سکول پر حملہ آوروں کو جانتے بوجھتے بھی تحفظ دیا جاتا ہے۔اس حملے کے ذمہ داران پاکستان آرمی کیا قیادت اور اس کی جہادی پالیسیاں ہیں۔
یہ سوال بہت اہم تھا جسے میڈیا میں شاید ہی کسی نے ڈسکس کیا کہ آرمی پبلک سکول پشاور کینٹ میں ہے اور کینٹ میں داخل ہونے کے لیے کئی چیک پوسٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہوا کہ دہشت گرد تمام چیک پوسٹوں سے بچ کر سکول پہنچے۔آرمی پبلک سکول پر حملے کی عدالتی رپورٹ میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ حملہ آوروں کے سہولت کار سکول کے اندر موجود تھے جنہوں نے ان کو سکول کے اندر داخل ہونے میں مدد کی۔
گو اس حملے کی ذمہ داری طالبان کے نمائندے احسان اللہ احسان نے قبول کی تھی جو بعد میں پاکستان آرمی کی حفاظتی تحویل میں رہا۔ اس کا مثبت امیج بنانے کے لیے میڈیا میں انٹرویو بھی چلائے گئے۔ لیکن چند ماہ پہلے وہ پاکستان آرمی کی حفاظتی تحویل سے فرار ہوگیا۔احسان اللہ احسان نے آرمی کی حفاظتی تحویل سے فرار ہونے کے بعد ایک آڈیو پیغام بھی ریلیز کیا تھا کہ وہ کیسے فرار ہوا۔
اس آڈیو پیغام کے مطابق وہ ایم آئی یعنی ملٹری انٹیلجنس کی تحویل میں تھا اور اسے پشاور کے علاقے میں ایک بڑا مکان ملا ہوا تھا اور اس کا بچہ وہیں ایک کرسچن سکول بھی جاتا تھا۔ ایم آئی چاہتی تھی کہ وہ ان کے ڈیتھ سکواڈ کا حصہ بنے اور ان طالبان کی ٹارگٹ کلنگ کی جائے جو پاکستان آرمی کی جہاد کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں۔
اس کے فرار کی آڈیو میں بہرحال ایک واضح پیغام ہے کہ ملٹری انٹیلی جنس کی تحویل سے فرار بھی آئی ایس آئی اور ان کے سہولت کاروں کی وجہ سے ممکن ہوا۔
ویب ڈیسک