بیرسٹرحمید باشانی
گزشتہ صدی کے اختتام پر نئی ٹیکنالوجی کی ایجادات نے شہریوں کو نئی امید دلائی تھی ۔ یہ امید اجاگر ہوئی تھی کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے عام شہریوں کو ضروری معلومات تک زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل ہو سکے گی۔ اور عام لوگوں کے لیے سیاسی اور سماجی سطح پر نئے رابطے قائم کرنے اور نئی برادریوں سے جڑنے کے امکانات پیدا ہوں گے۔
یہ ایک جمہوری مستقبل کا خواب تھا۔ لیکن بد قسمتی سے زیادہ جمہوری مستقبل کا یہ پُرجوش خواب بے تعبیر ثابت ہوا۔ اس کے بجائے نئی ٹیکنالوجی اب حکمران اشرافیہ کے اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لئے ان کا تازہ ترین ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔
اس کی ایک اہم مثال مصنوعی ذہانت ہے۔مصنوعی ذہانت کے ذریعے نگرانی کا کام روایتی نگرانی سے کہیں زیادہ خفیہ اور بہتر طریقوں سے اپنی مخالفین پر نظر رکھنے اور ان کی سرگرمیوں سے باخبر رہنے کی سہولت مہیا کرتا ہے۔ یہ ڈیجیٹل ٹول آمرانہ حکومتوں کو روایتی جاسوسوں ، ڈائری نویسوں، اور خفیہ پولیس والوں کی ناقص رپورٹوں پر انحصار کرنے کے بجائے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سیاسی مخالفین پر ایک وسیع تر جال ڈالنے کی صلاحیت بخشتا ہے۔ اس طرح اب حکمران طبقات کو لوگوں کے ٹیکسٹ پیغامات کی نگرانی کرنے ، ان کی سوشل میڈیا پوسٹوں کو پڑھنے ، یا ان کی نقل و حرکت سے باخبر رہنے کے لئے خفیہ والوں کا جال بچھانے پر بے تحاشا وسائل خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ایک تشویشناک تصویر ہے۔ یہ اس امید کے بالکل برعکس ہے، جو شروع میں انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا اور دوسری نئی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔2020 کی دوسری دہائی کے اوائل میں یہ امید اپنی انتہا تک پہنچی گئی تھی۔ اس وقت اس جادوئی ٹیکنالوجی کی مدد سے مصر ، لیبیا ، تیونس اور یمن میں دنیا بھر میں سب سے لمبے عرصہ تک حکمرانی کرنے والی چارآمریتوں کے تختے الٹ دیے گئے تھے۔ ان واقعات سے یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ اب آمریت پسند حکمران زیادہ عرصہ تک وہ نظام قائم نہیں رکھ سکیں گے ،جس پر ان کی طاقت کا انحصار ہے۔ لیکن بد قسمتی سے یہ تاثر زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکا۔
اس کے بر عکس یہ حقیقت زیادہ ابھر کرسامنے آئی کہ ٹیکنالوجی عام لوگوں کے ہاتھ میں ایک قیمتی ہتھیارتو ضرور ہے، مگر یہ ٹیکنالوجی خودبخود ان لوگوں کے کام نہیں آتی، جو اپنی آواز بلند کرنا چاہتے ہیں، یا جابرانہ حکومتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نعمت کا سہارا لینےکی کوشش کرتے ہیں، بلکہ اس کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف حکمران اشرافیہ نے اس ٹیکنالوجی کی طاقت بھانپ لی۔ ان کواس کی برکات سے پوری آگہی ہو گئی ہے۔اور عوام کے برعکس انہوں نے اس ٹیکنالوجی کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ لوگوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور بڑھتے ہوئے خوف کے پیش نظر اگلا قدم ا ٹھا لیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے آمریت پسندی کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کو اس کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کے عمل کا آغاز کر لیا ہے ۔
اس عمل کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہمارے دور میں کئی ملک ایسے ہیں، جن کو آپ ڈیجیٹل آمریتیں کہہ سکتے ہیں۔آج کی ڈیجیٹل آمریتیں اپنی طویل مدتی آمرانہ بقا کے لئے جدید ٹیکنالوجی یعنی انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال کر رہی ہیں۔ یہ ان کے اسلحہ خانوں کے نئے ہتھیار ہیں، جن کے ذریعے وہ نئے دور کے “دشمن” یعنی مظاہرین کا مقابلہ کر رہے پیں۔ ان دشمنوں میں لانگ مارچ کرنے والے، جلوس نکالنے والے اور دھرنے دینے والے سر فہرست ہیں۔
ان نئے ہتھیاروں کی وجہ سے یہ ڈیجیٹل آمریتیں اپنے پیشرو حکمرانوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ان بےچاروں کے پاس خفیہ والوں کی رپورٹ ہوتی تھی، اور آنسو گیس کے شل پر تکیہ تھا۔ اور لاٹھی چارج ان کا سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ گاہے گولی چلانے جیسا قدیم وحشیانہ راستہ بھی اختیار کر لیا جاتا تھا۔ لیکن ٹیکنالوجی نے صورت بدل دی ہے۔ اب آمریتیں ٹیکنالوجی کا شکار ہونے کے بجائے اس کے ذریعے مخالفین کو شکار کر رہی ہیں۔
دوسری طرف ڈیجیٹل دور نے اس سیاق و سباق کو تبدیل کردیا ہے، جس میں آمرانہ حکومتیں چلتی ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی جیسے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے عام لوگوں کے درمیان رابطے کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کیا ہے ۔ اس سے جو نئی صورت پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اب عام شہریوں کے لئے جابرانہ حکومتوں کے خلاف فوری طور پر متحرک کردار ادا کرنے کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ ان مواقعوں کو بروکار لاتے ہوئے دنیا بھر میں گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران درجن بھر کے قریب آمریتوں کو مظاہروں اور دھرنوں کے ذریعے اقتدار سے نکالا گیا ہے۔
مظاہروں کا بڑھتا ہوا خطرہ آج کی مطلق العنانیت پسندوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ماضی میں جب انہیں بغاوت کا خدشہ ہوتا تھا تو وہ اس کے تدارک کے لیے کئی حربے اختیار کرتے تھے۔ ان میں سب سے بڑا حربہ اسٹبلشمنٹ کی واضح حمایت حاصل کرنا ہوتا تھا۔لیکن چونکہ فی زمانہ احتجاج میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ، اس لیےآمرانہ حکومتوں نے اس خطرے کو کم کرنے اور اپنے بقا کے لیے نئے حربوں کو اپنایا ہے۔ فریڈم ہاؤس کے مرتب کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران عالمی سطح پر سیاسی اور شہری آزادیوں پر پابندیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کا ایک بڑا حصہ آمرانہ ممالک میں پیش آیا ہے ، جہاں حکمران اشرافیہ سیاسی اور شہری آزادیوں پر پابندیاں عائد کرتے رہے ہیں، تاکہ حفظ ماتقدم کے طور پر شہریوں کو حکمران اشرافیہ کے خلاف منظم اور متحرک ہونے سے روکا جائے۔
اس طرح آمرانہ ریاستیں اپنے مفادات کے لیے ڈیجیٹل ٹول کا استعمال سیکھ رہی ہیں۔ یہ استعمال سول سوسائٹی کے لئے سماج میں جگہ کم کرنے کے علاوہ ، حکومت مخالف عناصر، انسانی حقوق کے عملبرداروں اور شہری آزادیوں کے پرچارکوں کے خلاف بھی ہو رہا ہے۔ لیکن آج کی ڈیجیٹل طور پر جاننے والے آمرانہ حکومتیں کچھ اسی طرح کی تکنیکی اختراعات کو خطرناک مقبول عوامی تحریکوں کو بھی کچلنے کے لیے بھی استعمال کر رہی ہیں۔
ہمارے دور میں جوآمریتیں ڈیجیٹل جبر کے استعمال کو بڑھا رہی ہیں ، ان کے تشدد اور مخالفین کی ہلاکت کے متشدد طریقوں میں کمی نہیں آئی ہے، بلکہ ان طریقوں کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آمریت پسند رہنما روایتی جبر کو ڈیجیٹل جبر سے تبدیل نہیں کرتے ہیں۔ اس کے بجائے آمرانہ حکومتیں ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنے مخالفین کی نشاندہی آسان بنا کر زیادہ موثر انداز میں یہ طے کرتے ہیں کہ کس کے دروازے پرصرف ہلکی سی دستک ہی کافی ہے۔ اور کس کو مقدمات کے جال میں الجھانا ہے، اور کس کو کوٹھڑی میں ڈالنا ہے۔
مخالفین کی اس منتخب طریقے سے نشانہ بننے سے اندھا دھند جبر کا سہارا لینے کی ضرورت کم ہوجاتی ہے ، جو عوامی رد عمل اور اس کے نتیجے میں حکمران اشرافیہ کو ختم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ گویا نئی ٹیکنالوجی کی جو برکات تھیں، اور اس کے جو بے شمار سماجی و سیاسی فوائد تھے، ان سے عوام اپنا حصہ وصول کرنے میں ناکام رہے۔ اور جیسا کے تاریخ کے اکثر ادوار میں ہوتا رہا اسی طرح اب کی بار بھی حکمران اشرافیہ اور دوسرے مراعات یافتہ طبقات ہی یہ فوائد سمیٹنے میں کامیاب رہے۔
♥