رضوان عبدالرحمان عبداللہ
جانے کیوں ملک کے کرتا دھرتا یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیکورٹی خدشات کے نام پر گوادر کے گرد لگائی جانے والی باڑ سے اگر وہ شہر کو محفوظ بھی کر پائیں، تو ان کی ’’اچھی کارگردگی‘‘ اور اسی کارگردگی کے ذریعے صوبے میں سب کچھ ٹھیک ہونے کے دعوئے کس قدر پسپا ہو جائیں گے؟
یہ خار دار باڑیں تو اب یہ ثابت کریں گی کہ بلوچستان کا مسئلہ نا تو صرف دو تین سرداروں کا مسئلہ ہے اور نا ہی دو تین اضلاع میں بتلائی جانے والی شورش کا۔
بلوچستان کے باسی جو ریاست کے پالیسی سازوں کے دیوار سے لگانے والی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی متنفر نظر آتے ہیں، ناجانے کیوں اب ان کو باڑ سے لگا کر ان کی نفرت کرنے کی تمام وجوہات کو سو فیصدی جائز ثابت کیا جارہا ہے۔
ویسے اگر باڑ لگانا اتنا ہی لازم ہے تو اس باڑ کو وہاں کیوں نہیں لگایا جاتا جہاں اس کی اشد ضرورت ہے، جس کے لگنے سے نا صرف قوم کا مستقبل محفوظ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے ثمرات سے تو ملک کی قسمت کے سنورنے کی بھی امید کی جا سکتی ہے۔
کیوں نا بحیثیت قوم حکومت سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ ایک آہنی باڑ اپنی ستر سال سے قائم و دائم ان غلط ترجیحات کے گرد لگائیں، جس کی وجہ سے عوام کو درپیش صحت، تعلیم، مہنگائی، بے روزگاری سمیت دیگر تمام بنیادی مسائل ہمیشہ سے پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
خاردار تاریں اگر ہر دور کے وزرا اور مشیروں کی زبانوں کے گرد لگ جائیں تو نا صرف ملک کا سیاسی ماحول صحت افزا بن سکتا ہے بلکہ شاید اس سے ان کے زیردست اداروں سے بھی معیار کی کوئی توقع کی جا سکتی ہے۔
رکاوٹیں اگر لگانا ہی مقصود ہے تو یہ رکاوٹیں سیاستدانوں کی ہر صورت میں اقتدار میں آنے والی خواہشات کے گرد قائم ہونی چاہیں، جس کی وجہ سے ملک کی نوزائیدہ جمہوریت نوزائیدہ ہی رہ جاتی ہے اور موقع دے کر موقع سے فائدہ اٹھانے والے طویل العمر ہو جاتے ہیں۔
کانٹوں کے باڑ کی اشد ضرورت تو محکمہ جذبات کے گرد لگانے کی بھی ہے، جن کی ’’جذباتیت‘‘ نے کئی مواقعوں پر نا صرف قوم کو بہت کچھ بھگتنے پر مجبور کیا ہے، بلکہ ان کی اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کی روش ان کے اور عوام کے درمیان قائم کردہ خلیج کو گہری سے گہری تر کرتی آ رہی ہیں۔
حصار تو معاشرے کو یرغمال بنانے والے ان مذہبی گروہوں کے گرد بھی قائم کرنی چاہیے جن کی دی گئی تعلیمات نے ملک سے رواداری جیسے عنصر کو بالکل معدوم کردیا اور اب ہر دوسرا فرد خون کا پیاسا نظر آتا ہے۔
مضبوط باڑیں تو اس گودی میڈیا اور ان پر ڈفلی بجانے والوں کی تابعداری کی راہ میں بھی حائل کرنی چاہیں، جن کی وجہ سے استحصال کے خلاف بلند کی گئی مزاحمتی آواز دھیمی پڑ جاتی ہے۔
کیل کانٹے کی دیوار تو ملک میں مافیاز، سیٹھوں، ٹھیکیداروں کی بربریت کرنے کے اس کھلی چھوٹ کے خلاف قائم ہونی چاہیے جن کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کا جینا دو بھر ہوتا جا رہا ہے۔
اسی طرح کی باڑیں تو معاشرے میں پنپتی ان منفی رویے کے گرد بھی تعمیر کرنی چاہیے جس کی وجہ سے خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ باڑوں کی ان قسموں کے لگانے کا عمل گواد کے گرد لگائی جانے والی باڑ کی نسبت نہایت کھٹن اور طویل ہے، مگر شروعات کہیں سے بھی کی جائیں تو یقینا شہریوں کے تحفظ اور اُن کی فلاح و بہبود کے نام پر لگائی جانے والی گوادر جیسی استحصالی باڑ کی ضرورت نا پڑے۔
♠