حسن مجتبیٰ
عدنان سید نامی نوجوان ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب سابقہ مشرقی پاکستان میں ہزاروں نوجوان آزادی کی جنگ لڑنے گئے تھے ان میں عدنان سید کے ماموں احسن سید بھی شامل تھے۔ آزادی آئی لیکن ہزاروں نوجوانوں کی طرح احسن سید بھی گھر واپس نہیں آئے۔ وہ ان ہزاروں نوجوانوں کی طرح غائب ہیں۔
احسن احمد اور ایسے ان نوجوانوں کو اب “فریڈم فائٹرز” یا آزادی کی جنگ لڑنے والے کہا جاتا ہے۔لفظ ” فریڈم فائٹر” بنگلہ دیشی دنیا میں کہیں بھی ہوں ان کیلیے کوئی نیا یا اجنبی لفظ نہیں ہے۔ فریڈم فائٹر لفظ میں نے کسی کے لیے پہلی بار نیویارک میں ایک بنگلہ دیشی ریسٹورنٹ پر سنا کہ فلاں فریڈم فائٹر ہے۔
پچھلی رات چودہ دسمبر کے درمیان نیویارک کے جنوبی ایشیائی علاقے جیکسن ہائٹس کی ڈائیورسٹی پلازہ جو اب جلسوں اور ریلیوں کے حوالے سے جنوبی ایشیائيوں کا ایک طرح کا چھوٹا سا ہائیڈ پارک بنتا جا رہا ہے پر بنگلہ دیشی نوجوان مرد چاہے خواتین اور ادھیڑ عمر کے لوگ اکٹھے ہوئے تھے۔
یہ عام بنگلہ دیشی نہیں تھے۔ ان لوگوں میں مصور، ڈاکٹر، پروفیسر اور صحافی شامل تھے جنہوں نے کینوس اور رنگوں سے اس ڈائیورسٹی پلازہ نامی روڈ سیونٹی تھرڈ جوپبلک کے سہولیت کیلیے اب بند گلی جو بھارتی نثراد خاتون خلانورد کلپنا چاولہ کے نام پر ہے پر پینٹنگز سجائی ہوئی تھیں، اکھٹے ہوئے تھے ۔یہ سب لوگ سمیلیتا سنگسکرتک جوتے نامی تنظیم کے بئنر تلے آکر جمع ہوئے تھے۔
رات گئے بنگلہ دیشی مصور ایزیلوں پر برش سے تصویروں بنا رہے تھے۔ تصاویر سڑک کے فرش پر رکھ کر ان کے دونوں اطراف دیپ جلائے گئے تھے۔ پھول رکھے گئے تھے۔ بالکل خاموشی اور رات نے ایک عجیب سماں پیدا کرلیا تھا۔ میں نے سوچا بنگلہ دیش کا یوم آزادی تو ابھی دو دن دور ہے پھر یہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں! تب میری اسی جگہ نوجوان عدنان سید سے ملاقات ہوئی ۔ جس نے مجھے بتایا تھا کہ چودہ نومبر کی شب وہ ان بنگالی دانشوروں کی یاد میں شعمیں روشن کر رہے تھے ، پھول چڑہانے آئے تھے، اور رنگوں سے تصاویر بنا رہے تھے جن دانشوروں کو ڈھاکہ سمیت چودہ نومبر1971 کو تمام سابقہ مشرقی پاکستان سے چن چن کر پاکستانی فوج اور اسکے کاسہ لیس الشمس اور البدر کے “روضاکرس” (رضاکاروں) نے چن چن کر قتل کیا تھا۔
مجھے قرۃ العین حیدر ،کے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے پس منظر میں لکھے ہوئے ناول “آخر شب کے ہمسفر” کے کردار یاد آگئے۔ مجھے یہ یاد کر کے جسم میں سنسنی پھیل گئی کہ ستر کی دہائی کے سندھی دانشور اور طالب علم رہنما اور قوم پرست ایکٹوسٹ کہتے تھے کہ ہماری بھی فہرستیں بنی ہوئی ہیں وہ ہمیں بھی بنگالی دانشوروں اور قوم پرستوں کی طرح راتوں رات غائب کر کر قتل کر دیں گے۔
خیر میں ان یاداشتوں سے واپس لوٹ آیا تو میری نظر نیویارک کی ایک مسجد کے پیش امام قاضی عبدالقیوم پر پڑی۔ قاضی عبدالقیوم بنگلہ دیش کے دینی مدرسوں سے پڑھا ہے جہاں سرکاری طور آج بھی اردو میں تعلیم دی جاتی ہے۔ قاضی عبدالقیوم نے مجھ سے کہا جو میں کہوں گا وہ تم شائع ہی نہیں کرو گے۔
حافظ عبدالقیوم کی نئی تھیوری تھی۔ پہلے تو انہوں نے اسکی تمہید ابو الکلام آزاد کی مشہور پیشن گوئی سے باندھی کہ مذہب کی بنیاد پر مشرقی اور مغربی پاکستان کو پچیس سال سے زائد متحد نہیں رکھا جا سکتا۔ پھر قاضی عبدالقیوم نے کہا کہ ” مشرقی پاکستان میں جو کچھ سنہ 71 میں ہوا وہ جماعت اسلامی نے کیا جن میں ملا عبدالقادر وغیرہ شامل تھے مگر نام بدنام پاکستانی فوج کا ہوا “۔ قاضی عبدالقیوم نیویارک اور بنگلہ دیش کے درمیاں بیاہ کرنے والے جوڑوں کے بیچ نکاح آن لائين بذریعہ اسکائیپ پڑھایا کرتے ہیں۔ قاضی عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے پیچھے بھارتی جاسوسی ایجنسیوں رآ اور پاکستانی آئی ایس آئی کے ہاتھ کارفرما ہیں۔
نیویارک سمیت امریکہ میں بنگلہ دیشی جنوبی ایشیائی تارکین وطن میں سب سے زیادہ بڑھنے اور ترقی کرنے والی کمیونٹی مانی جاتی ہے۔ اور انکی ایک بڑی اکثریت نیویارک میں آباد ہے۔ بنگلہ دیشی کاروبار اور ملازمتوں میں بھی تیزی سے چھاتے جارہے ہیں۔ گذشتہ ایک سال سے انہوں نے جنوبی ایشیائي علاقے جیکسن ہائیٹس پر شہید مینار کی تعمیر کیلیے نیویارک کی شہری انتظامیہ کے پاس مہم بھی چلائی ہوئی ہے۔
امریکہ میں بنگلہ دیشیوں کی اکثر تعداد حسینہ واجد کے سخت خلاف ہے لیکن اسی لمحے وہ اس بات پر بھی متفق نظر آتی ہے کہ ملاں عبدالقادر بنگلہ دیش میں قتل عام و دیگر خلاف انسانیت جرائم میں ملوث تھے اور انہیں سزائے موت ہوئی وہ ٹھیک ہوئی۔
میں نے یہی سوال بنگلہ دیشی نوجوان عدنان سید سے کیا کہ سزائے موت انسانی حقوق کے حوالے سے کس طرح درست ہے؟ تو انکا کہنا تھا کہ پہلے عالمی انسانی حقوق کی ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیمیں خود تو انصاف کریں ۔” الٹا عدنان سید نے مجھ سے سوال کر ڈالا کہ میں 1971 کے قتلام کو کیسے دیکھتا ہوں
♠