بیرسٹرحمیدباشانی
ہم جمہوری دور کے لوگ ہیں۔ہمارے اس دنیا میں اب شاید ہی کوئی ایسا ملک بچا ہو جہاں حکومت کرنے کے لیے عوام کی مرضی اور رضا مندی نہ لی جاتی ہو۔یہ الگ بات ہے کہ یہ مرضی معلوم کرنے کے الگ الگ طریقے ہیں۔پاکستان سمیت اکثر ملکوں میں اس مقصد کے لیے معروف جمہوری طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔لیکن چین کی طرح کچھ ایسے ممالک بھی ہیں، جن میں عوام کی رضا جاننے کے بالکل ہی منفرد طریقے ہیں، جن پر اکثر جمہوریتوں کو اعتراض رہتا ہے۔وہ اس کو جمہوری طریقہ نہیں مانتے، اور اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
گویا اس جمہوری دور کے باوجود پوری دنیا جمہوریت کے ثمرات سے پوری طرح استفادہ نہیں کر رہی ہے۔ یہی عالم انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا بھی ہے۔ جمہوری دور میں زندہ رہنے کے باوجود کئی ممالک کے شہری انسانی حقوق اور شہری آزدیوں سے محروم ہیں۔ لیکن حقوق کے باب میں سب سے درد ناک کہانی مزدوروں اور کسانوں کی کہانی ہے۔
سوویت یونین ٹوٹنے اور دنیا میں سرمایہ داری نظام کی بالادستی کے بعد مزدوروں اور کسانوں کے معاشی و سماجی حقوق برے طریقے سے مجروح ہوئے ہیں۔ اس کے خلاف آئے دن احتجاج ہوتا رہتا ہے۔ اس کی ایک تازہ ترین اور بڑی مثال بھارت میں مزدوروں اور کسانوں کا حالیہ احتجاج ہے۔ یہ احتجاجی مارچ آل انڈیا کسان سنگھارش کمیٹی کے زیر اہتمام ہو رہاہے. یہ کسانوں اورمزدوروں کا ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے ، جس میں تقریبا دو سو پچاس کے قریب مزدوروں ، کسانوں اور زراعت سے وابستہ لوگوں کی کی تنظیمیں ، انجمنیں اور گروہ شامل ہیں۔
اس بہت بڑے پلیٹ فارم کے زیر اہتمام جو مارچ اور احتجاج کی اپیل کی گئی ، وہ دائیں بازوں کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں قائم حکومت کی مزدور کسان پالیسیوں کے خلاف ہے۔دلی چلو اس مارچ میں پنجاب ، ہریانہ ، اتر پردیش اور مادھیہ پردیش سے کسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی ہے ۔ یہ حیرت انگیز مارچ بھارت کے مزدوروں اور کسانوں کے درمیان ایک بہت بڑے اتحاد کی کا عملی اظہار ہے، جو نیو لبرل ازم کی ان پالیسیوں کے خلاف ہے ، جو گزشتہ تین دہائیوں سے بھارت میں جاری ہیں۔
شرکا مارچ کے کئی مطالبات ہیں۔ ایک اہم ترین مطالبہ فارم ایکٹ میں تبدیلی کا ہے، جن کو مزدوروں اور کسانوں کے علاوہ بعض دانشورحلقوں میں کارپوریٹ دوست اور کسان دشمن ایکٹ سمجھا جاتا ہے ۔ان میں وہ قوانین شامل ہیں اور جن کو بھارت کی معشیت کے بنیادی ڈھانچے میں ایک اہم ترین تبدیلی تصور کیا جاتا ہے۔
کسانوں اور مزدوروں کے بارے میں فکر مند کئی دانشوروں کا خیال ہے کہ چار میں سے تین قوانین ایسے ہیں ، جن کا مقصد زراعت اور کھیتی باڑی کی “کار پروٹائزیشن ” کرنا ہے۔کسانوں کے خیال میں کارپروٹائزیشن کا یہ عمل آگے چل کر کسانوں کو نگل لے گا ، جو بھارت کی بہت بڑی آبادی کو خوراک مہیا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسی بالکل واضح ہے۔انہوں نے اس بات کا برملا اور بار بار اصرار کیا ہے کہ وہ ملک کی کی خوراک کی گھریلو منڈی کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے کھولنا چاہتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے موجودہ نظام کے اندر جو محدود پیمانے پر پر کسانوں کے لئے “سپورٹ سسٹم ” موجود ہے جس میں کسانوں کے لیے سبسڈی ، مالی امداد اور سبز انقلاب کے زمانے کی دوسری مراعات شامل ہیں،ان کو بھی ختم کرنا ہے۔
ظاہر ہےیہ ایک بڑا قدم ہے، جس کا اثر پورے ملک پر اور کسانوں پر پڑے گا ۔ کسان یہ محسوس کرتے ہیں کہ نئے قانون کے تحت کم از کم امداد کے نظام کا خاتمہ ، سرکاری ویئرہاؤس نیٹ ورک کے استعمال سے محرومی اور فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کی مدد کے بغیر ان کے لیے لئے زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔اور ان میں جو زیادہ تنگ دست اورکمزور ہیں وہ آگے چل کر وہ اپنی زمین اور اپنے جانوروں سے بھی محروم ہو جائیں گے ۔ یہ لوگ نیو لبرل ازم کی جو مارکیٹ پالیسی کا شکار ہوکر بے زمین اور بے گھر قسم کے کھیت مزدور مہاجربن جائیں گے ۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے گزر اوقات کے لیے لیے مزدوری کے ساتھ ساتھ بڑی حد تک حکومت کے اس نیٹ ورک سبسڈی اور امدادی پروگرام پر انحصار کرتے ہیں۔
مزدوروں کے حوالے سے جو چار لیبر کوڈبنائے گئے ہیں ہیں وہ وہ مزدور طبقے کے مفادات سے بہت بڑی حد تک متصادم ہیں ۔ جس کی وجہ سے مزدور رہنماوں کا خیال ہے کہ ان کے جو بنیادی حقوق ہیں ، جس میں اوقات کار کی زیادہ سے زیادہ حد،کم از کم معاوضے کا تعین، یونین سازی کا حق، اجتماعی سودے بازی اور ہڑتال کا حق جیسے تمام بنیادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں۔
کسانوں اور مزدوروں کے ہمدرد دانشوروں کا خیال ہے کہ اگر ملک میں مزدوروں اور کسانوں کو بنیادی حقوق میسر نہیں ہیں تو پھر عوام کے عام جمہوری حقوق بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ،اور حتمی نتیجے کے طور سماج نیو لبرل ازم اور کارپوریٹ پھندےمیں پھنس جاتاہے۔ اس لیے مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد صرف ان کے ذریعہ آمدن کو بچانے کے لیے ہی نہیں ہے، بلکہ یہ جمہوریت کی بقا اور عوام کے جمہوری حقوق لیے بھی ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ملک کے مزدور اور کسان اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلے ہیں ،یاانہوں نے احتجاج کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ لوگ ملک میں نیو لبرل ازم کی اصلاح پسندی کے خلاف گزشتہ تین دہائیوں سے لڑرہے ہیں ۔ اور اس طرح ہندوستان کے اندر نیو لبرل سرمایہ داری کے خلاف مزاحمت میں مزدور اور کسان ہراول دستے کا کا رول ادا کرتے رہے ہیں ۔ اور اگر وہاں اب تک پبلک سیکٹر میں باقی کچھ بچ گیا ہے تو اس کا سہرا بھی مزدوروں اور کسانوں کے سر جاتا ہے ۔ یہ طبقہ سیاسی طور پر زیادہ باشعوراور متحرک ہے، جس نے دائیں بازوں کی بہت ساری پالیسیز کی مزاحمت کی ہے۔
انڈیا کی پارلیمنٹ میں تین لیبرکوڈپاس کیے ہیں، جن کو انڈسٹریل ریلیشن کوڈ، سیفٹی ہیلتھ کوڈا ورورکنگ کمیشن کوڈکا نام دیا گیا جن کے خلاف وسیع پیمانے پرتنقید اوراحتجاج ہوا ۔
انڈسٹریل ریلیشنز کوڈ میں تین پہلے سے موجود قوانین کو تبدیل کیا گیا جن میں ٹریڈ یونین ایکٹ 1962 بھی ہے، جس کے مطابق جن کمپنیوں کے پاس 300 ملازمین ہیں ان کو اپنے ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے یا اپنی فیکٹری کو بند کرنے کے لیے حکومت سے پیشگی منظوری لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔
ملازمین کی ہڑتال کے حق کےساتھ بھی شرائط عائد کی گئی ہیں۔اور ایک شرط یہ بھی رکھی گئی ہے کہ ہڑتال کرنےکے لیے کم ازکم 60 دن کا نوٹس دینا ضروری ہوگا ۔اور اگر آجر اس نوٹس کو لے کر لیبر ٹریبونل میں چلا جاتا ہے، تو مزددر اس وقت تک ہڑتال نہیں کرسکتے جب تک کہ معاملہ ٹرابیونل میں چل رہا ہے اور اس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔جس پر طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔
♦