منیر سامی
نفیس اور با وقار بلوچ خاتون عمل پرست کریمہؔ بلوچ سے میری آخری ملاقات ، ٹورونٹو میں بلوچ گمشدہ افراد کی حمایت کے ایک مظاہرہ میں ہوئی تھی۔ یہ مظاہرہ ٹورونٹو کے ایک مرکزی مقام پر ہو رہا تھا۔ اس مظاہرہ میں کئی بلوچ عمل پرست تنظیمیں، ورلڈ سندھی کانگریس، پشتون عمل پرست، اور کینیڈا کے ممتاز عمل پرست اور صحافی شریک تھے۔ انہوں نے اس تقریب میں ایک پر اثر تقریر کی۔
کل ان کی لاش ٹورونٹو کے ایک مرکزی جزیرہ پر، پُر اسرا حالات میں پائی گئی۔ وہ اب سے چند سال پہلے ایک بلوچ پناہ گزین کی حیثیت سے کینیڈاا ٓئی تھیں۔ اس سے قبل وہ کم عمری ہی سے بلوچ عوام کے حقوق کی جدو جہد میں شریک تھیں۔ اس دشت میں جو سب پہ گزرتی ہے اُن پر بھی گزری۔ ان کو جھوٹے الزامات میں سزا سنائی گئی۔ سزا سناتے وقت جج نے کہا کہ آپ کے خاتون ہونے اور آپ کی کم عمری کے سبب آپ کو کم سزا دی جاتی ہے ، تو انہوں نے دلیرانہ انداز میں کہا کہ آپ مجھے برابری کی بنیاد پر وہ ہی سزا دیں جو آپ سب کو دیتے ہیں۔
چند سال کے بعد جب وہ بلوچ اسٹودینٹ آرگنائیزیشن بی ایس او کے صدر زاہد بلوچ کے ساتھ سفر کر رہی تھیں، تو انہیں روکا گیا۔ تین لڑکیوں کو ایک طرف کھڑا کرنے کے بعد ، روکنے والے افراد نے جن کا تعلق کسی عسکری تنطیم سے لگتا تھا، زاہد بلوچ پر سخت تشدد کیا گیا، اور خواتین کو وہیں چھوڑ کر ، زاہد بلوچ کو نا معلوم مقام پر بھیج دیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد کریمہ بلوچ کو بی ایس او کا چیئر پرسن بنایا گیا۔ وہ اس عہدہ پر فائز پہلی بلوچ خاتون تھیں۔
اس کے بعد وہ زاہد بلوچ کی گرفتاری کے خلاف اور بلوچ حقوق کی جدو جہد میں اور بھی زیادہ متحرک ہو گئیں، اس سے قبل وہ بلوچ گمشدہ افراد کے حق میں کیے گئے لانگ مارچ کی اہم کارکن تھیں۔ ان کی عمل پرستی کی وجہ سے حکام نے ان کے خلاف کاروایئاں سخت تر کر دیں۔ ان کے کئی رشتہ داروں کو گرفتار، اغوا ، اور ہلاک کیا گیا۔ بڑھتے ہوئے جبر کے بعد انہوں نے ترکِ وطن اختیار کیا۔ کینیڈا کے کئی ممتاز عمل پرستوں کی امداد سے انہوں نے کیینڈا میں سیاسی پناہ حاصل کی۔
اب سے چند سال قبل کینیڈا آنے کے بعد بھی انہوں نے بلوچ حقوق کی جد جہد جاری رکھی۔ اس ضمن میں ان کی کینیڈا کے اہم عہدے داروں سے ملاقات بھی رہی ، جس میں کینیڈا کے وزیرِ داخلہ بھی شامل تھے۔ اسی زمانے میں وہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں میں شریک ہو کر اپنا احتجاج پر زور طریقہ سے پیش کرتی رہیں۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سامنے بھی بلوچ معاملا ت کو اٹھائے۔
گزشتہ سالوں میں وہ کینیڈا کی حکومت سے مطالبہ کرتی رہیں کہ کینیڈا پاکستان کے سابق فوج عہدے داروں کو کینیڈا میں قیام کی اجازت نہ دے، اور ان کی خفیہ سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ اس کے بعد ہی سے اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکام نے ان کی نگرانی بھی بڑھائی اور ساتھ ساتھ ان کے خاندان پر زور دیا گیا کہ وہ انہیں کینیڈا میں بلوچ حقوق کی سرگرمیوں سے روکیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق ان کے ماموں کو گرفتار کیا گیا، اور خاندان سے کہا گیا کہ اگر کریمہ بلوچ پاکستان واپس آجائیں تو ماموں کو چھوڑ دیا جائے گا۔ کریمہ کے انکار کے بعد ان کے ماموں کی لاش ان کے گھر والوں کے حوالے کر دی گئی۔
ان سب مظالم کے باوجود کریمہ بلوچ اپنی جدو جہد میں ثابت قدم رہیں۔ وہ ہر موقع پر بلوچ حقوق کی آواز بلند کرتی رہیں۔ ہم نے کئی بار انہیں ورلڈ سندھی کانگرس کے کئی جلسوں میں انکی پر اثر گفتگو سننے کا موقع ملا۔ وہ بلوچستان کی نفیس اور باوقار خواتین کی مثال تھیں۔ ہم نے ہمیشہ انہیں چادر یا دوپٹے میں ملبوس دیکھا۔
کینیڈا ٓنے سے قبل چند سال تک انہیں بانقاب رہنا پڑا تھا، چونکہ پاکستان میں جدو جہد کے دوران انہیں حفاظتی طور اپنی شناخت چھپانا پڑتی تھی۔ کینیڈا آتے ہی انہوں نے نقاب کو ترک کیا ااور ہمیشہ دوپٹہ سر پر رکھا تھا۔ انکی شخصیت اور ان کی عمل پرستی ، سب کو ان کے دلی احترام کی ترغیب دیتی تھی۔ سالہا سال سے عمل پرستی کے کارکن کے طو ر پر ہم کہتے ہیں کہ ایسی عمل پرست رہنما خواتین ، خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ شاعر نے شاید ایسی ہی شخصیات کے لیئے ،’ مت سہل ہمیں جانو‘ والی بات کہی ہو گی۔
ان کی موت کی ضمن میں انسانی حقوق کی بعض عالمی انجمنوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ شاید ان کی اس پر اسرار موت میں پاکستان کے خفیہ ادارو ں کا ہاتھ ہو۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کینیڈا کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعہ کی سنجیدہ تحقیقات کرے اور مجرموں کو سخت ترین سزا کے ساتھ کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ یاد رہے کہ اب سے چند پہلے ایک اور بلوچ عمل پرست ساجد بلوچ کی لاش بھی ایک یورپی ملک میں دریا سے ملی تھی۔
ہمار ا بھی مطالبہ ہے کہ کینیڈا اس واقعہ کی ہر حقیقت کو افشا کرے اور کینیڈا میں عمل پرست تارکینِ وطن کی حفاظت یقینی بنائے۔
♣