ستائیس دسمبر2007 کو بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں۔ذوالفقار علی بھٹو ، شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو کو بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ بھٹو خاندان پاکستان کا واحد سیاسی خاندان ہے جس نے ملک کی بقا ، ترقی اور جمہوریت کی خاطر اپنی جانیں تک دے دیں۔ ملکی تاریخ کا یہ اندوہناک و افسوسناک واقعہ ہے اور اس بے ہیمانہ قتل کی مذمت کے لیے لفظوں کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ر ہ گئی، اس کی جتنی بھی مذمت کی جاسکتی ہے وہ کم ہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت سیدھی سادھی ٹارگٹ کلنگ کا نتیجہ ہے ۔ بی بی سی کے مطابق قریبی عمارت(گورڈن کالج) کی بالکونی یا چھت سے انتہائی تجربہ کار شخص نے دور بین سے نشانہ لے کر فائرنگ کی۔ گولیاں گاڑی کی ونڈ سکرین کو چیرتی ہوئی ان کے سر اور گردن میںلگیںاور جب تک وہ ہسپتال پہنچیں ان کے سانس ختم ہو چکے تھے۔ اس قتل کو خود کش حملہ ظاہر کرنے کے لیے فوراً ہی بم پھینکا گیا اور ہجوم میں افراتفری پھیل گئی۔ واقعے کے دو گھنٹے بعد ہی ریسکیو کی ٹیم نے متاثرہ جگہ کو دھو کر صاف کر دیا ۔ بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کیا گیا ۔ حکومت کو اتنی جلدی تھی کہ تابوت کو ہسپتال سے نکال کر چکلالہ ائیر بیس پہنچا کر ہی دم لیا گیا اور یہ تمام عمل ایک منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہی تھا۔
18اکتوبر کو بے نظیر بھٹو نے اپنی سات سالہ جلاوطنی کے بعد ضیا باقیات کی طرف سے تمام تر مخالفانہ پراپیگنڈے کے، جب پاکستان میں قدم رکھا تو پاکستانی عوام کا ایک جم غفیر ان کے استقبال کے لیے باہر نکل آیا ۔پاکستان کے عوام نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ جمہوریت اور بہتر مستقبل چاہتے ہیں۔ بنیاد پرست اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حواری بے نظیر کی مقبولیت دیکھ کر ایک بار پھر بوکھلا گئے ۔ ان کے تمام تر اندازے غلط ہوگئے اور اسی وقت فیصلہ کر لیا گیا کہ اس کو منظر سے ہٹا دیا جائے گا۔اسی رات بارہ بجے لاکھوںکے ہجوم میں دو خود کش حملے ہوئے جس میں بے نظیر بال بال بچ گئیں اور ڈیڑھ کے قریب افراد ہلاک ہو گئے۔ انھیں بار بار ڈرایا گیا ، دھمکایا گیا لیکن اس کے باوجود بے نظیر کے عزم و ہمت میںکوئی لغزش پیدا نہ ہوئی اور وہ اپنے کارکنوں کا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔
بے نظیر کی آمد کے ساتھ ہی حسب معمول ضیاء باقیات ، جو پریس اور الیکٹرانک میڈیا پر قابض ہیں، نے بے نظیر کی کردار کشی کی مہم شروع کر دی تھی۔ میڈیا پر پابندی کے باوجود بے نظیرکے خلاف پراپیگنڈہ ہوتا رہا مگرچوہدریوں کے کردار پر کسی نے انگلی نہ اٹھائی۔ماضی میں بھی میڈیا میں مخالفانہ پراپیگنڈہ بے نظیر اور پیپلز پارٹی کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور اب بھی بے اثر ثابت ہو رہا تھا۔ ان تمام تر اقدامات کے باوجودبے نظیر کے انتخابی جلسے ہمارے مقتدر حلقوں کو ہضم نہ ہو سکے اور وہ اسے اپنے لیے خوف سمجھنے لگے۔
ہمارے مقتدر حلقوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو بھی سیاسی رہنما ان کے طے کردہ اصولوں سے انحراف کرے گا وہ صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گاچاہے وہ ذوالفقار علی بھٹوکا خاندان ہو یا اکبر بگٹی یا کوئی اور بلوچ قوم پرست۔ بلکہ انھیں تو کسی سیاسی رہنما کی بھی ضرورت نہیں ۔ وہ تو دنیا کودکھانے کے لیے ایک نام نہاد جمہوری نظام رکھنا چاہتے ہیں جس میں کوئی شوکت عزیز قسم کا فرد ہی وزیر اعظم رہے ، جس کے پردے میں وہ اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکیں۔ عوام کا کوئی بھی حقیقی نمائندہ ان کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہی بنتا رہے گا۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو ہی جنوبی ایشیا کی واحد رہنما تھی جس نے مستقبل میں اس خطے کی خوشحالی اور ترقی میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔ اس خطے کی خوشحالی اور ترقی ہی ہمارے مقتدر حلقوں کے مفاد میں نہیں۔ اس خطے میں امن و امان قائم ہونے کا مطلب ان کی موت ہے۔٭٭
نیازمانہ جنوری 2008 کا اداریہ