ایمل خٹک
پولیٹیکل انجینئرنگ کے ذریعے ووٹ چوری ، احتساب کے نام پر انتقام اور منظم انداز میں اپوزیشن راہنماوں کی کردار کشی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ظہور کی چند بنیادی وجوہات ہیں ۔ اپوزیشن رہنماوں کو سیاست اور انتخابات سے بیدخل کرنے کیلئے مین سٹریم میڈیا پر ان کی میڈیا ٹرائیل اور کردار کشی اور سوشل میڈیا پر بھرپور ڈس انفارمیشن مہم چلائی گئی جو ابھی تک جاری ہے۔ اپوزیشن راہنماوں کی کردار کشی مہم میں ایجنسیوں کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے ٹرولز اور ریاست کے زیر کنٹرول سوشل میڈیا ٹیمیں بھی پیش پیش رہی ۔ ڈس انفارمیشن مہم میں ریاستی اداروں کی واضح نقش نے اپوزیشن کی بعض عسکری شخصیات پر جانبداری کے الزامات کو تقویت دی ۔
یہ ڈس انفارمیشن اتنی ننگی اور بھونڈے انداز میں چلائی گئی کہ اس کے پس پردہ کردار اور عوامل اپنے پیچھے شناختی نشانات اور ناقابل تردید ثبوت چھوڑتے گئے۔ اپوزیشن راہنماوں کے بارے میں انتہائی غلیظ اور بیہودہ زبان استعمال کی گی۔اور تو اور عسکری محکمہ اطلاعات کے منظور شدہ دفاعی تجزیہ نگاروں کی فوج ظفر موج نے بھی ایک مخصوص قسم کا بیانیہ پروموٹ کیا۔ جس سے اسٹبلشمنٹ جانبداری مشکوک اور عوام میں غم و غصہ بڑھا۔
پی ڈی ایم حکومت کی اعصاب پر اتنی سوار ہوچکی ہے ۔ کہ وزیراعظم عمران خان کا زیادہ تر وقت پی ڈی ایم کو زچ کرنے اور اپوزیشن راہنماوں کی کردار کشی اور انہیں کاونٹر کرنے کی حکمت عملی وضع کرنے اور ترجمانوں کو ہدایات دینے میں صرف ہوتی ہے۔ اس طرح سلیکٹرز بھی سخت دباؤ میں اور دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ حتی کہ گٹر میڈیا جو ہمہ وقت حزب اختلاف کے راہنماوں کی کردارکشی میں مصروف رہتی ہے بھی اب اپوزیش کو کوریج دینے اور حکومت کی خراب طرز حکمرانی اور نالائقی پر تنقید پر مجبور ہورہی ہے۔
وزیراعظم کی ڈھائی سال کے بعد اپنی ناتجربہ کاری اور ناکامی کے اعتراف سے اس نے اپنی حکومت کی تابوت میں آخری کیل ٹوکا۔ حکومت کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے ۔اس دوران اسٹبلشمنٹ بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر اصلاح احوال کیلئے عمران خان کو مشورے دیتی رہی ہے اور بار بار کی یاددہانیوں اور حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود حالات بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان کی ضدی مزاج اور متکبرانہ رویہ سیاسی محاذ آرائی کم کرنے اور مفاھمت کی فضا بنانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگایا گیا۔ نتیجتاً اپوزیشن نے بھی مفاہمت کے دروازے بند کر دئیے ہیں ۔ سیاسی ڈیڈلاک کی فضا ہے اور روزبروز سیاسی محاذ آرائی بڑھ رہی ہے ۔
مبصرین چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ حالیہ ملاقات کو کافی اہمیت دے رہے ہیں۔ ایک واجبی سی پریس ریلیز اور ملاقات کی مختصر ویڈیو اور تصویر کے علاوہ میڈیا کو ملاقات کی کوئی تفصیلات نہیں بتائی گی مگر ملاقات کی ویڈیو اور تصویر نے بہت کچھ عیاں کیا ۔ ملاقات کے پس منظر ، شرکاء کے چہروں کے تاثرات اور اجلاس کی کیمسٹری سے ملاقات کے ایجنڈا کو سمجھنے میں مدد ملی ۔
پرسوں چکوال میں ایک افتتاحی تقریب سے خطاب عمران خان کی فوجی حکام سے ملاقات کے بعد پہلی عوامی میل جول کا موقع تھا۔ خطاب میں عمران خان نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان پر الزام لگایا کہ اپوزیشن اداروں پر تنقید کرکے انہیں بلیک میل کرکے حکومت پر دباؤ ڈال کر چوری معاف کرانا چاہتی ہے ۔ وہی تند وتیز اور تلخ لہجہ اختیار کیاگیا مگر ساتھ میں ایسٹبلشمنٹ کو پیغام بھی دیا گیا۔
ایک طرف عمران خان کا لہجہ دھمکی آمیز ہوتا جارہا ہے اور این آر او دینے کو ملک سے غداری قرار دیکر اس نے مقتدر حلقوں کو خبردار کیا۔ اس طرح وہ پہلے ہی اسمبلی کے فلور پر دھمکی دے چکا ہے کہ اگر اس کو مائنس ون کے فارمولے کے تحت ھٹایا گیا تو وہ کسی اور کو بھی حکومت نہیں کرنے دئیگا۔ دوسری طرف اپوزیشن بعض عسکری شخصیات کو اپوزیشن جماعتوں میں انتشار ، توڑ پھوڑ اور ملک میں جاری یک طرفہ اور انتقامی احتسابی عمل کیلئے موردالزام ٹہرا رہی ہے۔ اور اس حوالے سے اسٹبلشمنٹ پر اس کی تنقید میں تلخی اور سختی بڑھ رہی ہے ۔
درپیش سنگین داخلی اور خارجی چیلنجوں کے پیش نظر ملک مزید افراتفری اور عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا اور سنجیدہ حلقے مفا ہمت اور مکالمے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں ۔ عمران خان کا غیرلچکدار رویہ مقتدر حلقوں کیلئے ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔ اب وہ قیمتی اثاثہ نہیں بلکہ بوجھ بن چکا ہے ۔ اور روز بروز بوجھ کے وزن میں اضافہ ہو رہا ہے اور مقتدر حلقے مزید اس بوجھ کو اٹھانے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ ریاستی اداروں اور شخصیات کو اب عمران خان سے زیادہ اپنی شہرت ، وقار اور ساکھ کی فکر لگی ھوئی۔ عمران خان اسٹبلشمنٹ کی حلق کی ہڈی بن چکا ہے اور اس کی متکبرانہ اور ضدی طبعیت کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کو اب اس سے ڈیل کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
حال ہی میں فوجی قیادت کی مختلف الخیال افراد بشمول ریٹائرڈ افسران کے ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال پر مشاورتیں ہوئی ہیں اور ہر طرف سے حکومت کی نااہلی اور نالائقی کا رونا رویا گیا اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے پر زور دیاگیا ہے ۔ اس کے علاوہ حاضر اور ریٹائرڈ افسران کی پریشانی اور اضطراب کی ایک وجہ گزشتہ تین ماہ میں اپوزیشن کے سخت رویئے اور بعض عسکری شخصیات کو برائے راست تنقید کا نشانہ بنانے اور ان پر ملکی سیاست میں مداخلت اور پولیٹیکل انجینئرنگ کا الزام لگانا بھی ھے۔ بلاشبہ سلیکٹرز نے بغض معاویہ میں عمران خان کو برسراقتدار لانے میں احتیاط کا دامن ھاتھ سے چھوڑ دیا تھا اور ایک نالائق اور متکبر شخص کے ساتھ اپنے آپ کو غیر ضروری طور پر نتھی اور بدنام کیا ہے ۔
اسٹبلشمنٹ کا المیہ یہ ہے کہ اپوزیشن تو پہلے ہی سے اس پر اعتماد کیلئے تیار نہیں اب حکومت کے شکوک وشبہات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ نظام کو جاری رکھنے اور محاذ آرائی میں کمی کیلئے مقتدر قوتوں نے عمران خان کو ہتھ ہولا رکھنے اور ذاتیات سے اجتناب کا مشورہ دیا ہے ۔ اگرچہ مقتدر حلقوں نے عمران خان کو درپردہ رابطوں کے متعلق بریف کیا مگر اسٹبلشمنٹ کے درپردہ رابطوں سے عمران خان پریشان اور مطمئن نہیں اور اسے شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ درپردہ رابطوں کا ایک مقصد اپوزیشن کے سخت گیر عناصر خاص کر مولانا فضل الرحمن کو تنہا کرنا ہے ۔
اگر اسٹبلشمنٹ اپوزیشن کی صفوں میں بداعتمادی ، انتشار اور توڑ ر پھوڑ کی پالیسی پر کاربند ر ہے گی ، احتساب کے نام پر انتقامی کاروائیاں اور میڈیا پر اپوزیشن راہنماوں کی کردار کشی اور ڈس انفارمیشن مہم جاری رہے تو اپوزیشن کی بدگمانیاں اور شکوک و شبہات میں کمی کا امکان نہیں ہے ۔ کہتے ہیں کہ سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے ۔ اب اپوزیشن اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں عدم مداخلت کی ٹھوس یقین دھانیوں اور عملی اقدامات کے بغیر شاید مکالمے کیلئے تیار ہو ۔ بدقسمتی سے اسٹبلشمنٹ نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور اب پھر روایتی طریقوں سے محاذ آرائی کم کرنے کے موڈ میں ہے۔ کنویں سے مردہ جانور نکالنے کی بجائے چند بالٹی پانی نکالنا چاہتی ہے۔ مسائل اتنے سنگین اور گھمبیر ہے کہ دیرپا حل کی بجائے اسے قالین کے نیچے ڈالنا زیادہ نقصان دہ ہے۔
بیک ڈور رابطوں میں تیزی آنے کا امکان ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بیک ڈور رابطوں کا مقصد اپوزیشن کو مصروف رکھ کر احتجاجی تحریک کو کمزور کرنا ، پی ڈی ایم میں انتشار اور پھوٹ ڈالنا ہے یا واقعی اصلاح احوال کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش ہے ۔ ملک کو درپیش سنگین داخلی اور خارجی چیلنجز کا تقاضا تو یہ ہے کہ لالی پاپ دینے اور پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو یاتاخیری حربوں سے کام لیکر صورتحال کو ڈیفیوز کرنے سے اجتناب کیا جائےگا ۔ موجودہ شدید سیاسی صف بندی کی فضا میں لالی پاپ دینے کی کوششیں نہ صرف کامیاب نہیں ہوسکتی بلکہ پہلے سے موجود بے اعتمادی اور شکوک وشبہات میں مزید اضافے کا سبب بنے گی۔
نظام کی پستی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ بعض ادارے اپنے آئینی مینڈیٹ کا لحاظ اور پاسداری نہیں کرتے بلکہ اپنے آپ کو ریاست سے بالاتر سمجھتے ہیں اور ہر معاملے میں مداخلت کرتے ہیں۔ سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت ختم کیئے بغیر بات نہیں بنی گی۔ انتظامیہ ، پارلیمان اور عدلیہ میں مداخلت کے سنگین الزامات اور ناقابل تردید شواہد کے پیش نظر اب ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت بند کرنا ہوگی ۔ پہلے مداخلت سو پردوں کے پیچھے ہوتی تھی اب کھلم کھلا ہورہی ہے ۔ اس لئے اب الزامات بھی کھلے عام اور عوامی سطح پر لگ رہے ہیں ۔ اب عوامی حاکمیت اور ووٹ کو عزت دو کی بنیاد پر نئے سوشل کنٹریکٹ کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔
♠