پائندخان خروٹی
ڈیجیٹل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں سوشل میڈیا اپنی اہمیت و افادیت کی بنیاد پر روزمرہ انسانی زندگی کا لازمی جز بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا نہ صرف انٹرٹینمنٹ کا موثر ذریعہ ہے بلکہ علم و معلومات تک رسائی کا ایک معتبر وسیلہ بھی ہے۔ قارئین میری اس بات سے بیشک اختلاف کریں مگر سوشل میڈیا بذات خود ایک سوشو پولیٹیکل تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے جس نے قلیل مدت میں روایتی سوچ واپروچ پر زمین تنگ کر دی۔ گویا یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ کوئی بھی سیاسی یاسماجی تحریک سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اور سٹریٹجٹس کے بغیر کامیابی سے ہمنکار نہیں ہوسکتی ۔شاید اسی لیے کل تک فوٹو اور ٹی وی پر فتویٰ جاری کرنے والی رجعتی قوتیں نہ صرف آج بےبس کھڑے ہیں بلکہ سوشل میڈیا کی بدولت کلچر ولٹریچر میں بھی خرافات وتوہمات کی بساط کو لپیٹی جارہی ہے۔
سوشل میڈیا نے اجتماعی احساس کو اُجاگر کرنے، جوانوں کو طنزوتنقید کی جرآت دینے، نئے تنقیدی سوالات اٹھانے، دہشت ووحشت پر مبنی ذہنیت کو بےنقاب کرنے، پوشیدہ تخلیقی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے، جعلی معززین و معتبرین کو زمین بوس کرنے، معاشی غنڈوں کو للکارنے، خرافات وتوہمات کا خاتمہ کرنے اور انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں انقلاب برپا کیا ہے۔ اگر یہی سلسلہ مزید جاری رہا تو بلا شک وشبہ بہت جلد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اجارہ داری کی جگہ مضبوط اور مستحکم خلقی بالادستی قائم ہو جائیگی۔
بقولِ شاعر
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
سوشل میڈیا کے ظہور پذیر ہوتے ہی استحصالی، جنونی، تخریبی اور خوف وہراس پھیلانے والوں کے خلاف انفرادی سطح پر بھی بہت منظم اور مربوط انداز میں مذمت و مزاحمت کو پروان چڑھ رہا ہے۔ مزاحمت جیسا کہ لفظ سے ظاہر ہے اپنے معروض میں موجود فروعونیت، قارونیت اور مذہبی پیشوائیت سے مزاحم یا ٹکرانے کا نام ہے۔ اب مزید کوئی بھی قوت وحشت اور دہشت کے نام اپنی بالادستی قائم نہیں رکھ سکتی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جنگی ذہنیت، توسیع پسندانہ عزائم اور رجعتی قوتوں کا فوری طور پر خاتمہ کر کے مظبوط اور مستحکم معاشی نظام تشکیل دینے کیلئے اقدامات کریں تاکہ عوام دوست معاشی، سیاسی اور سماجی پالیسیوں اور سرگرمیوں کو فروغ مل سکے۔
سوشل میڈیا نے بڑی تیزی سے ٹی وی چینلوں اور بڑے اخبارات پر غلبہ پانے میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک سروے کے مطابق سردست مشہور ومعروف ٹی وی چینلز کے ناظرین میں چالیس فیصد کمی آئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلز کے مالکان بتدریج اپنے ملازمین کو نکال رہے ہیں۔ پاکستان میں کسی کا نام لئے بغیر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دو سب سے بڑے میڈیا گروپس نے صرف رواں سال کے اندر ہزاروں سینئر میڈیا پرسنز کو نکال دیے اور دیگر میڈیا مراکز بھی ملازمین اور اخراجات کے حوالے سے کمی لائی جارہی ہے۔ پرائیویٹ اخبارات اور چینلوں میں طاری معاشی خوف نے باقی سینیئر اینکرز اور ایڈیٹرز کو پہلے سے آن لائن چینلز کھولنے پر مجبور کیا ہے کیونکہ بڑے چینلوں کی انحطاط پذیری سے ان کا مسقبل بھی خطرے میں ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا کی ترویج اور ترقی سے اب دنیابھر میں ٹی وی چینلوں اور اخبارات پر عوام کی ترجمانی، حق گوئی اور حقیقت نگاری کے حوالے سے عوامی اعتماد بھی اُٹھ چکا ہے جبکہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے عام لوگ ریاستی قوانین، چینل مالکان کی پابندیوں اور ذاتی معاشی مجبوریوں سے نسبتاً آزاد ہوتے ہیں لہٰذا گلی کوچوں میں رہنے والے عام سیاسی کارکن بڑے چینلوں پر بیٹھے لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والوں سے کہیں زیادہ کھرا سچ بولتے ہیں، بالادست طبقہ کی پالیسیوں کو بےرحمانه تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، معیشت پر مسلط معاشی غنڈوں کے استحصالی عزائم کو ببانگ دہل بےنقاب کرتے ہیں اور ہر پل نئے تنقیدی سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔ اسطرح دنیا کے ہر ملک کے سرکاری بیانیہ کے خلاف متبادل بیانیہ پیش کرنے کیئے مضبوط بنیادیں فراہم ہورہی ہیں ۔
وہ ادیب اور پرفیسر حضرات جو تخلیق اور تنقید سے عاری صرف معلومات کے گودام ہوتے تھے ۔سوشل میڈیا نے پہلے مرحلے میں انہیں زندہ گاڑدیئے ۔ دنیا بھر میں چاروں طرف سے بالا دست طابقہ اور مذہبی جماعتوں پر تنقید کے شدید نشتر۔ اس طرح بڑے چینلوں کے بڑے اینکرز اب صرف اہل زر اور زور اور خاص کر اپنے چینل مالکان کی چاپلوسی اور خوشامد کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں اور سچ ہی کہتے ہیں کہ چاپلوسی اور چمچہ گیری کا سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔
ذہن نشین رہے کہ سوشل میڈیا نے سیلف پروجیکشن اور سستی شہرت کو بیماری کی حد تک پہنچایا اور بعض لوگ سردست اس کی معلومات کو مستند نہیں مانتے۔ واضح رہے کہ دنیا میں ہر چیز ارتقاء پذیر ہے۔ سوشل میڈیا کے بےجاء استعمال کی شکایت اکثر درست بھی ہوتی ہے تاہم مشاہدہ اور تجربہ کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی عمل کی بلوغت حاصل کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے اور توقع ہے کہ مستقبل قریب میں سوشل میڈیا کی اس کمزوری پر بھی قابو پایا جائے گا۔ انگریزی زبان کا محاورہ ہے کہ
“It takes three generations to make a gentleman”
مہذب بننے کیلئے تین نسلیں درکار ہوتى ہیں۔ گویا پاکستان میں موجودہ یعنی پہلی نسل نے ہی سوشل میڈیا کا ذائقہ چکھا ہے۔
ارٹیفیشل انٹیلیجنس اور روبوٹک ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہونے سے قبل یہ ضروری ہوچکا ہے کہ جو اخبار، میگزین، ریڈیو چینل یا ٹی وی چینل آن لائن سہولت نہیں رکھتا یا نہیں اپناتا وہ بہت جلد اپنی موت آپ مر جائے گا۔ سوشل میڈیا کی سہولت کی رسائی آپکے کمرے تک نہیں بلکہ ہر فرد کی جیب تک حاصل ہو چکی ہے۔ پولیٹیکل ایجوکیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر ناممکن ہو چکے ہیں۔ جدید سیاست، تنقیدی شعور اور انتخابات میں سوشل میڈیا کے اہم کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کو پرولتاري بالادستی کی خاطر ایک مقصد اور نظریہ کے تحت بروئے کار لایا جائے۔
♣