مولانا فضل الرحمان اور جمعیتِ علمائے اسلام کو پی ڈی ایم کی قیادت کرنے کا بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ نے ایک کرکٹر کا سہارا لیکر بڑی سیاسی جماعتوں کو کافی نقصان پہنچایا، اب اس کو جمعیت علمائے اسلام میں سے اتنے موثر لوگ مل گئے ہیں جو جمعیت کی تنظیمی قوت اور عوامی مقبولیت کو بری طرح منتشر کرسکتے ہیں۔
مولانا شیرانی، حافظ حسین احمد، مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک جمعیت کے کوئی عام کارکن نہیں تھے بلکہ ایسے تنظیمی عہدوں اور انتخابی حلقوں کو سنبھالے ہوئے تھے، جن میں وہ اپنے بنائے ہوئے تنظیمی اور عوامی تعلقات کا سہارا لیکر پورے پاکستان میں جمعیت نظریاتی والے تجربے سے کئی گناہ خطرناک اور موثر تجربہ کرسکتے ہیں جس کو پھر مولانا صاحب اور جمعیت سے سنبھالنا کافی مشکل ہوگا۔
جمعیت کے اندر جو ردعمل کی نفسیات کے مارے لوگ پڑے ہیں، وہ جمعیت توڑنے کے عمل کا فعال حصہ بن سکتے ہیں۔ بیانیے میں موروثی سیاست کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اس خطے میں امریکا کے کردار کے گرد کوئی لمبا چھوڑا افسانہ باندھنے کی بھی ضرورت پڑے گی اور یہ کہانی بھی سنانی پڑے گی کہ مولانا فضل الرحمان کیسے جمعیت کے اصولوں اور اکابرین کے راستوں سے انحراف کرگئے ہیں۔ لگ بھگ اسی پیٹرن میں ہی بات کی جائیگی جو پیٹرن اے این پی اور پی پی پی کے خلاف اکثر استعمال ہوا ہے۔
اگرچہ اس بیانیے کا دلیل سے جواب کوئی مشکل کام نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں تنظیموں کو توڑنے کا رجحان اتنا موثر رہا ہے جس میں دلیل کم کام کرتی جبکہ ردعمل، ضد، انتقام، بلیک میلنگ، شور شرابے، ہر غیر متعلقہ فرد کو اچھل اچھل کر کود پڑنے، اچانک نظریاتی بن جانے، انقلابی بن جانے، لمبی لمبی چھوڑنے، دانشوری گھڑنے، بین الاقوامی امور پر اخلاقی اور اخباری جملے مارنے اور شکوک و شبہات کا ماحول بنانے کے رویے اپنا کام کرجاتے ہیں۔
خان زمان کاکڑ