منیر سامی
گزشتہ ستّر سال سے پاکستا ن کے صوبے بلوچستان سے جو بھی خبر آتی ہے ، خون سے لکھی ہوتی ہے۔ جیسے ہی سرخی سے تر تحریرسوکھتی ہے ، ایک نئی تازہ خبر آجاتی ہے۔ بلوچستان کے لوگ بھی عجیب ہیں ، اپنے سر ہاتھوں پہ رکھے ہوئے ، اپنا حق مانگتے رہتے ہیں۔ سروں کی ایک فصل کٹنے پر ایک تازہ فصل آجاتی ہے۔ اور ہر شام ، ہر رات وہی منظر دکھائی دینے لگتا ہے جس کی طرف احمد ندیم قاسمی ؔ نے اشارہ یہ کہہ کر کیا تھا کہ:
’’ چاند اس رات بھی نکلا تھا مگر اس کا وجود
اتنا خوں رنگ تھا جیسے کسی معصوم کی لاش
تارے اس رات بھی چمکے تھے مگر اس ڈھب سے
جیسے کٹ جائے کوئی جسمِ حسیں خاش بہ خاش
اتنی بے چین تھی اس رات مہک پھولوں کی
جیسے ماں، جس کو ہو، کھوئے ہوئے بچے کی تلاش
پیڑ چیخ اٹھتے تھے، امواجِ ہوا کی زد میں
نوکِ شمشیر کی مانند تھی جھونکوں کی تلاش‘‘۔۔
اگر ان سطروں میں مجھے اور آپ کو بلوچستان کی تصویر نظر نہ آئے تو میں اور آپ بھی ان ہی ستمگروں کی طرح بے حس اور ظالم ہیں ، جیسے کہ وہ جو بلوچستان میں روز ہی جسموں کے پُرزے پُرزے کر کے گلیوں بازارو ں میں بکھیر دیتے ہیں۔ جیسے کہ وہ جو مائوں کی نظروں کے سامنے ان جوان بچے چھین کے لاجاتے، یا ایسے گُم شدہ کرتے ہیں کہ سب کے سامنے ہونے کے باوجود ان کا نشان تک نہیں ملتا۔
مجھے ایسی کہانیاں پڑھ کر کبھی ترک سلطانوں کی تاریخ یاد آتی ہے، کبھی لاطینی امریکہ کے منظر نظر میں لہراتے ہیں۔ کبھی بنگلہ دیش کی جنگ آزادیِ یاد آتی ہے۔
نہ جانے آپ ترکی کی تاریخ سے کتنا واقف ہیں، وہ ترکی جس کی مثالیں کبھی جنرل مشرف دیتے تھے۔ اور اب عمران خان دیتے ہیں۔ جس کے ایک کردار ارطغرل کو حکومتِ پاکستان ہیرو قرار دیتی ہے ، اور جس کے بارے میں ٖڈرامے دیکھتے دیکھتے ہمار خواتین اپنی انگلیاں کاٹ لیتی ہیں۔ اس ترکی کی داستان بھی بلوچستان کی طرح خون سے لکھی ہے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ ترک سلطان اپنی مقبوضہ اور زیرِ نگیں مملکتوں میں اپنے وحشی فوجی بھیجتے تھے۔ جو ماؤں سے ان کے ننھے بچے چھین کر لے آتے تھے۔ پھر ان کا مذہب تبدیل کرکے انہیں ان کی مرضی سے بے خبر مسلمان بنایا جاتا تھا ۔ اس کے بعد ان کی شناخت تک چھین کر انہیں سلطان کے ان خاص ذاتی محافظ دستوں میں بھرتی کیا جاتا تھو جو ’جانثاری ‘ کے نام سے جانے جاتے تھے، اور سلطان کے حکم پر کشت و خون کے لیے ہمہ دم تیار رہتے تھے۔ان کے ماں باپ شاید ساری عمر ا ن کی یاد میں مجبوری کی زندگی گزار دیتے ہوں گے۔کیا اس تایخ میں آپ کو بلوچستان دکھایا دیا ، سندھ کے مظلوم ہندو دکھائی دیئے۔
لاطینی امریکہ کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے۔ وہاں بھی فوجی حکمرانوں یا آمروں کے احکامات پر ہزاروں لوگون کو اغوا کرکے گم شدہ کر دیا تھا۔ الزام یہی ہوتا تھا کہ یہ ـ’غدار‘ ہیں۔ پھر کبھی ان کی اجتماعی قبریں ملتی تھیں ۔ ان میں سے ہزاروں کی تو اب تک کوئی خبر ہی نہیں۔ اگر کبھی عدالتوں نے مظلوموں کی تلاش کا کوئی حکم بھی دیا تو اس پر عمل نہیں کیا جاتا تھا۔ کیا اس تناظر میں آپ کو بلوچستان دکھائی دیا۔
اب بنگلہ دیش کی بات کیا سنائیں۔ گزشتہ پچاس سال میں پیدا ہونے والی پاکستانی نسلوں کو تو پتہ بھی نہیں کہ مشرقی پاکستان بھی کوئی پاکستانی صوبہ تھا۔ پھر بھی یہ بتانے میں کیا ہرج ہے کہ موجودہ پاکستان کے لوگ اس وقت بنگالیوں کو ایسا ہی غدار گردانتے تھے ، جیسے کہ آج سب بلوچ قوم کو، سندھی قوم پرستوں کو، پشتونوں کو، اور اردو بولنے والے کو گردانتے ہیں۔ اب اس میں نواز شریف کے حامی پنجابی بھی شامل ہو گئے ہیں۔
اس تحریر کا محرک گزشتہ دنوں کینیڈا میں پر اسرار طور پر مردہ پائی جانے والی کریمہ بلوچ بھی ، یورپ میں ایسے ہی انجام کا شکار ساجد بلوچ بھی ، اور اسی ہفتہ بلوچستان میں دہشت گردی ہلاک ہونے والے وہ مظلوم کان کن ہیں ، جن کی خبر یہ کہہ کر کم کی جارہی ہے کہ وہ ہزارہ تھے ، اور شاید کسی شیعہ سنی جھگڑے کا شکار ہوگئے۔ لیکن کوئی نہیں پوچھتا کہ ان سب مظلوموں کی موت میں کس کا ہاتھ ہے۔ ہم چلتے چلتے اک نظم کی سطریں آپ کو پیش کرتے اور مظلوموں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اجازت مانگتے ہیں۔۔
’’ مرے سب لوگ مرتے جارہے ہیں۔۔۔مجھے ان کی خبر ، اخبار سے ملتی ہے ۔۔ یا ایسے مسافر سے ۔۔ کہ جو اس بار بھی۔۔ کتنے ہی معصوموں کو کاندھا دے کے آیا ہے۔۔ کسی اخبار نے یہ بھی لکھا ہے۔۔ مسافر نے بتایا ہے۔۔ کہ معصوموں کے سب قاتل۔۔۔ ہر ایک کے سامنے ہیں۔۔ اور کسی کو بھی دکھائی تک نہیں دیتے۔۔ کہ معصوموں کے وارث ۔۔ اب دہائی تک نہیں دیتے۔۔
♥
Pingback: بلوچستان: اتنا خون رنگ ہے جیسے کسی معصوم کی لاش - آواز