بیرسٹرحمید باشانی
یہ حکومت آپ کی اپنی ہے، اور سابقہ حکومت سے بالکل مختلف ہے۔ لہذا جب کوئی اچھی بات ہوتو اس کی تعریف کیجیے۔ اور جب کوئی غلط کام ہو توبلا کھٹکے اس پر نقطہ چینی کیجیے۔ میں نقطہ چینی کو پسند کرتا ہوں، لیکن ایسی نقطہ چینی جو ایمانداری اورتعمیری جذبے سے کی گئی ہو۔ اچھی طرح سن لیجیے:اگر آپ یہ طریقہ کاراختیار کریں گے تو آپ ملک کے معاملات و حالات بہت جلد بہتر بنا لیں گے۔
آزادی اظہار رائے کے باب میں یہ باتیں قائداعظم محمد علی جناح نےاپریل 1948 میں ایڈورڈز کالج پشاور کے طلبہ کے سپاسنامے کے جواب میں کہی تھیں۔ قائد اعظم کی طرف سے یہ اپنی حکومت پر تنقید کی کھلی دعوت تھی۔ اور انہوں نے نقطہ چینی کو حکومتی معاملات کی بہتری کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں قائد اعظم کے بعد آنے والے حکمرانوں نے “نقطہ چینی” کو ہی سب سے بڑا جرم قرار دیا۔ اور نقطہ چینی کرنے والوں کو نیست ونابود یا قید وبند کرنے کی پالیسی اپنائی۔
اس پالیسی کی بہت ساری تفصیلات ” پریس ان چین” جیسی شہکار کتاب میں درج ہیں۔ بد قسمتی سے یہ پالیسی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے سخت ہوتی گئی۔ ہمارے زمانے تک پہنچنے تک یہ پالیسی ایک انتہائی خطرناک ہتھیار بن گیا، جو جدید دور میں آزادی اظہار رائے اور سیاسی مخالفین کی نقطہ چینی سے نمٹنے کے لیے کامیابی سے استعمال ہوتا ہے۔ قائداعظم نے اپنی حکومت کو اپنی پیشرو حکومتوں یعنی انگریزوں کی حکومت سے مختلف قرار دیا۔ ظاہر ہے انگریزوں کی حکومت میں اظہار آزادی رائے اور نقطہ چینی کی حدود و قیود مقرر تھیں۔ یہ حدود و قیود نوآبادیاتی نظام اور سمندر پار سے آکر ایک اجنبی دیس پر حکمرانی کی ضروریات کی عکاس تھی۔
ان حدود و قیود کے برعکس قائداعظم نے ایک آزاد پاکستان میں نقطہ چینی کو لازمی قرار دیا۔ ظاہر ہے قائداعظم کے تصور میں اس وقت یہ بات نہیں تھی کہ ان کے بعد پاکستان پر ایسے ایسے حکمران مسلط ہوں گے ، جو آزادی اظہار رائے اور نقطہ چینی کو ذاتی دشمنی قرار دیکر اس کے خلاف پوری ریاستی طاقت اور وسائل استعمال کریں گے۔
آزادی اظہار رائے اور نقطہ چینی کے خلاف اس طرح کا مخاصمانہ ماحول صرف پاکستان میں ہی پیدا نہیں ہوا۔ دنیا کی دیگر کئی ریاستوں میں آمریت پسند قوتیں، آزادیوں، جمہوریت اورکثرتیت پسندی پر پوری شدت سے حملہ آورہوئیں۔ کئی دوسرے ممالک میں آمریت پسند حکمران اشرافیہ نے اپنے خلاف مزاحمت کے آخری نشان تک کو مٹانے اور سماج پر اپنی گرفت کو مضبوط تر کرنے کے لیے ریاستی طاقت کو بے دریغ طریقے سے استعمال کیا ۔
آمریتیں تو ایک طرف، ہمارے دور میں آزادانہ اور جمہوری طریقوں سے منتخب دنیا کے بہت سے رہنماؤں نے بڑےڈرامائی انداز میں اپنی سوچ اور انداز حکمرانی میں تبدیلی لائی ۔ انہوں نے قومی مفاد اور اپنے ذاتی مفادات کو کچھ اس طرح گڈ مڈ کیا کہ دونوں کے درمیان سے وہ لکیر مٹ گئی، جو ذاتی مفاد کو قومی مفاد سے الگ کرکہ دیکھانے میں مدد دیتی ہے۔ اس طرح ان کو ان کے زاتی و سیاسی مفادات کے خلاف سرگرم مزاحمت کاروں کی سرگرمیوں کو قومی مفادات کے خلاف قراردیکر ریاستی وسائل کے زریعے کچلنے کا جواز مل گیا۔
حکمران طبقات کے ان رجحانات کے نتیجے میں ” فریڈم ہاؤس” نے سال2019کوعالمی سطح پر آزادیوں کے زوال کا متواتر 14واں سال قرار دیا۔ جمہوریت اور آزادیوں کے باب میں کئی ممالک میں زوال سال 2018 کے مقابلہ میں اور بڑھ گیا ۔ دنیا کے تقریبا 64 ممالک میں شہریوں کو اپنے سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں میں زوال اور گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں صرف 37 ممالک میں جمہوریت اور شہری آزادیوں کے حوالے سے صورت حال میں قدرے بہتری ہوئی ہے۔
آزادیوں پرمنفی طرز کے اثرات نے ہر قسم کی حکومتوں کو متاثر کیا ہے۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران صورت حال میں ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں ۔ پچھلی دہائی کے دوران آزادیوں کے حوالے سے بہتر قرار دیے جانے والے ممالک میں منفی اور جمہوریت کش اثرات نظر آئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں جمہوری اور آمریت پسند دونوں قسم کے ریاستوں میں نسلی ، مذہبی اور دیگر اقلیتی گروہوں کے ساتھ امتیازی سلوک، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سرکاری زیادتیوں کی شکایات آئی ہیں۔ یہ ماحول پیدا کرنے میں جہاں آمریت پسندوں کا کردار ہے، وہاں جمہوری طاقتوں کا اخلاقی انحطاط بھی اس کی ایک وجہ ہے۔
بد قسمتی سے آمرانہ حکومتوں کی بے لگام بربریت اور جمہوری طاقتوں کا اخلاقی انحطاط دونوں مل کر دنیا میں بہتر طرز حکمرانی کے لئے نا موافق ماحول پیدا کر رہی ہیں۔ لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ اس کے خلاف رد عمل اور مزاحمت بھی ہو رہی ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران دنیا بھر میں جمہوریت، شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے لیے شہریوں کی نئی احتجاجی تحریکوں کی ایک حیرت انگیز تعداد ابھر کر سامنے آئی ہے، جو بنیادی حقوق کے تحفظ کی عالمگیر خواہش کی عکاسی کرتی ہے۔
ان تحریکوں نے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے خلاف مضبوطی سے مورچہ بند طاقت ور قوتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ حالاں کہ یہ قوتیں اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے جان لیوا طاقت استعمال کرنے پر تیار دکھائی دیتی رہی ہیں۔
بد قسمتی سےان چند برسوں میں آزدیوں اور شہری حقوق کے حق میں ہونے والے مظاہرے اب تک شہری آزادیوں اور انسانی حقوق میں مجموعی طور پر در آنے والے زوال کو روکنے میں ناکام رہے ہیں ۔ اس کی وجہ جمہوری قوتوں کی لاتعلقی ہے۔ جمہوری قوتوں کی جانب سے کھلی حمایت اور یکجہتی کے بغیر ان مزاحمت کاروں کا آمرانہ انتقامی کارروائیوں کا شکار ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر “آمریت زدہ جمہوریتوں” میں انسانی حقوق اور شہری آزدیوں کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔
ان اقدامات کی ایک مشترکہ مثال میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانا ہے۔ یہ عمل دنیا کے بہت سارے ممالک میں ملتی جلتی شکلوں میں دہرایا گیا ہے۔ تیسری دنیا کے کچھ ترقی پزیر ممالک میں تو میڈیا پر پابندیاں ایک عام سی روزمرہ کی سرگرمی بن کر رہ گئی ہے۔ اس تلخ حقیقت کا اظہار کئی عالمی رپوٹوں میں ہوتا ہے۔ ان رپوٹوں کے مطابق اس وقت ہمارے خطے کی صورت حال تشویشناک ہے۔
آزادی اظہار رائے اور پریس کی آزادی کے باب میں اس وقت دنیا کے ممالک کی فہرست میں ہندوستان ایک سو بیالیس اور پاکستان ایک سو پینتالس نمبر پر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس باب میں ان ممالک کی صورت حال ناگفتہ بہہ ہے۔ یہ افسوسناک بات ہے۔ چونکہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ، پاکستان میں ایک نسبتاً متحرک میڈیا سامنے آیا تھا، جو مکمل طور پر آزاد نہ سہی، مگر بہت سی خبروں اور آرا کو پیش کرتا تھا۔
حالیہ برسوں میں حکمران اشرافیہ نے میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کے لئے بڑے اقدامات کیے ہیں۔ اس دوران متعدد واقعات دیکھنے میں آئے، جس میں اشرافیہ نے انفرادی صحافیوں ، ٹیلی ویژن پروگراموں اور چینلز اورمیڈیا ہاؤسز پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے، تاکہ ان مسائل کو نہ اٹھایا جا سکے، جنہیں ارباب اختیار نا پسند کرتے ہیں۔اس باب میں متعدد ہتھیار استعمال کیے گتے ، جن میں تنقید کرنے والے میڈیا کو حکومتی اشتہارات نہ دینے کے روایتی انداز کے ساتھ ساتھ عارضی پابندیوں کے مختلف طریقے بھی شامل ہے۔ ظاہر ہے اس طرح کے اقدامات حکمران اشرافیہ کے تنقید اور نقطہ چینی کے بارے میں عدم برداشت کے رویے کے عکاس ہیں۔
♠