ڈاکٹر محمد زبیر
پی ٹی ایم کے منظرِ عام پر آنے سے پہلے اگر کسی شخص نے ریاست ،فوج اور دہشت گردوں کے درمیان گٹھ جوڑ پر کھل کر بات کی، اگر کسی نے فوج کے ہاتھوں پشتونوں کا علاقہ میدانِ جنگ میں بدلنے اور انکا خون ڈالروں کے عوض بیچنے کیخلاف عوامی سطح پر اعتراض اٹھایا، اگر کسی نے فوج اور انکے پیدا کردہ دہشت گردوں کے درمیان فاٹا اور سوات میں ایک لمبے عرصے تک چلنے والے ٹوپی ڈرامے اور انکے درمیان امن معاہدوں پر کھل کر احتجاج کیا، اگر کسی نے وزیرستان اور فاٹا کے دیگر علاقوں میں عرب اور انکے حواری دہشت گردوں کے تکفیری نظریے پر کھل کر تنقید کی، اگر کسی نے ابابیلوں (ڈرون) کی یلغار کا عوامی سطح پر کھل کر خیر مقدم کیا جس نے چن چن کر فوج کے منظورِ نظر اُن دہشتگردوں کا صفایا کیا جنکی موت پر جی ایچ کیو میں صفِ ماتم بچھی لیکن جنکے ہاتھوں پر ہزاروں پشتونوں کا خون تھا، اگر کسی نے پشتونوں کے وسائل پر پنجابی اشرافیہ کے قبضے کے منصوبوں پر سیاسی بیان بازی سے بالاتر ہوکر علمی تتحقیق کی روشنی میں پشتون عوام میں سیاسی شعور کی آگاہی بیدار کرنے کی کوشش کی — تو ان کا نام ڈاکٹر سید عالم ہے۔
ڈاکٹر صاحب چند دوستوں کے ہمراہ یہ سب کچھ پختونخواہ کے پریس کلبوں، بازاروں، چوکوں اور چوراہوں میں کرتے رہےاور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب دہشت گردوں کی پہنچ پاکستان کے کونے کونے تک پھیلی ہوئی تھی، جب وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں فوج کی مدد سے دہشت گردوں کا راج قائم تھا، جب پختونخواہ کی کی گلی گلی میں، بازاروں میں، عبادتگاہوں میں، جنازوں پر، اور عوامی جرگوں پر آئے دن حملے ہورہے تھے اور خوف کے مارے کسی کے منہ سے ایک لفظ تک فوج یا دہشت گردوں کے خلاف نہیں نکل سکتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کو ٹی ٹی پی کے سرغنہ دہشت گرد حکیم اللہ محسود نے مار ڈالنے کی براہ راست دھمکی دی تھی اور ہمارے اصرار پر انہیں چند مہینوں کے لیے روپوش ہونا پڑا لیکن روپوشی کے دوران بھی اپنی عادت سے مجبور ہوکر پریس کلبوں اور چوکوں میں احتجاجوں میں اچانک وارد ہوجایا کرتا تھے۔
یہ ڈاکٹر صاحب ہی تھے جنہوں نے اسلام آباد دھرنے میں کنٹینر پر کھڑے ہوکرسب سے پہلے ببانگِ دہل یہ نعرہ لگایا کہ یہ “ریاست دہشت گرد ہے، اس ریاست کی فوج دہشت گرد ہے”۔ اور اس طرح انہوں پی ٹی ایم کے بیانیے کی بنیاد رکھی۔
ڈاکٹر صاحب کے کردار اور عمل پر آج تک کوئی بھی شخص انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ وہ نہ آج تک بکے ہیں، نہ جھکے ہیں اور نہ ہی ڈرے ہیں۔ پشتونوں کی سیاست میں پچھلے ڈھائی دہائیوں سے عروج و زوال آتے رہے، پشتونوں سیاسی لیڈرشپ بکتی، ڈرتی اور گھٹنے ٹیکتے رہی، اور مصلحتوں کا شکار ہوتی رہی لیکن ڈاکٹر صاحب کوہِ گراں کی طرح ثابت قدم رہے۔
ڈاکٹر سید عالم ایک قابل پیڈریاٹک پلاسٹک سرجن ہیں اور اگر وہ اپنے پیشے کو اتنا وقت دیتے جتنا انہوں نے پشتونوں کے حقوق کے تحفظ کی جنگ لڑنے کو دی تو یقین جانئے وہ آج دوسرے بڑے پیشہ ور ڈاکٹروں کی طرح کروڑوں اور اربوں کما کر چوکوں اور چوراہوں پر احتجاجوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائےعیاشی کی زندگی گزار رہے ہوتے۔ میں نے انکے ہم عصر “پیشہ ورانہ” ڈاکٹرز کو ان پر وقت ضائع کرنے کے طنز کرتے بے شمار بار سنا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے پشتونوں کی سیاست سے نہ عہدہ کمایا ہے اور نہ ہی پیسہ۔ بلکہ دونوں پر لات ماری ہے۔ وہ اے این پی اور پشتونخواہ عوامی پارٹی میں رہے ہیں۔ کیا ڈاکٹر صاحب میں اتنی صلاحیت بھی نہیں تھی کہ وہ ان سیاسی پارٹیوں میں موجود بہت سے للو پنجوؤں کی طرح پارلیمنٹ اور اسمبلیوں تک پہنچ جاتے۔ یقیناً تھی لیکن ان میں پشتونوں کے حقوق پر سودا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔
ڈاکٹر سید عالم پشتونوں کا اثاثہ ہیں۔ میں انہیں اپنا استاد سمجھتا ہوں۔ بہت سے پشتون نوجوانوں نے ان سے سیاست کی الف ب پ سیکھی ہے۔ خدا انہیں ہمارے لیے بمع منظور پاشتین اور پی ٹی ایم کے دیگر نوجوان رہنماؤں کے زندہ سلامت رکھے۔
♣