ملک میں عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے تعلقات کے حوالے سے گرما گرم مباحث جاری ہیں اور مختلف قسم کی افواہیں زیر گردش ہیں جو اقتدار کے ایوانوں میں تشویش، ہلچل اور جوڑ توڑ کی غمازی کرتی ہے ۔ ان ایوانوں میں ہونے والی چہ میگوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ مقتدر حلقوں میں حکومت کی نااہلی اور ناکامی کا احساس بڑھ رہا ہے اور اصلاح احوال کی خواہش مچل رہی ہے۔ جلد پتہ چل جائے گا کہ اندرون خانہ کونسی کھچڑی پک رہی ہے ۔
ایسٹبلشمنٹ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور دونوں ایک پیج پر دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ایسٹبلشمنٹ نے موجودہ حکومت کو لانے اور سنبھالا دینے کیلئے اتنی بھونڈے اور ننگے انداز سے پولیٹیکل انجینئرنگ کی کہ اپنی ساکھ اور شہرت کو داؤ پر لگادیا ہے ۔ مگر حکومت نہ صرف بہتر طرز حکمرانی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی بلکہ معاشی میدان میں بہتری کی بجائے ابتری کا رحجان ہے ۔ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال ہر طبقے کو متاثر کررہی ہے اور اسٹبلشمنٹ کو یہ تشویش کھائی جارہی ہے کہ اگر گرتی ہوئی معیشت کو بروقت سہارا نہیں دیا گیا تو قومی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔
اگرچہ حکومت نے اسٹبلشمنٹ کی جمہوریت دشمن اقدامات اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں مثلا انسانی حقوق اور سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی ، ماورائے عدالت قتل، بےبنیاد مقدمات کے قیام اور گرفتاریاں اور میڈیا پر قدغنوں وغیرہ پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہے ۔ مگر عمران خان کی من مانی، ھٹ دھرمی اور ضد اصلاح احوال کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ شروع دن سے مثلا پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومت سازی اور بہتر طرز حکمرانی کے ضمن میں حکومت نے اس کے کئ اھم مشوروں کو نظرانداز کیا ہے۔
سول ملٹری تعلقات کو سمجھنے کیلئے ممتاز صحافی ابصار عالم کی ایک حالیہ ٹوئٹ کا ذکر کرنا بیجا نہ ھوگا۔ ابصار عالم نے جنرل (ر) اسلم بیگ سے اپنے حالیہ ملاقات اور موجودہ صورتحال پر ان کے خیالات کا حوالہ دیا ہے ۔ جنرل اسلم بیگ کے مطابق فوج کو اپنی دفاع میں کھڑا کرنے میں ناکامی کے بعد عمران خان چاہتے ہیں کہ مارشل لاء لگے۔ تاکہ وہ مظلوم بن جائے اور اپوزیشن کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسٹبلشمنٹ میں سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے حامی عناصر یا مشرف باقیات عمران خان کی مکمل حمایت کر رہے ہیں ۔ اور انہوں نے چیف کو بھی زیر اثر رکھا ہوا ہے ۔ جو فوج کے ادارے کیلئے نقصان دہ ہے ۔ بیگ صاحب کی بات کو تقویت اس امر سے بھی ملتی ہے کہ عمران خان کی کابینہ میں ایک اچھی خاصی تعداد ان شخصیات کی ہے جو پرویز مشرف کے دور حکومت میں اھم عہدوں پر فائض رہے ہیں ۔ اور ضرورت پڑنے ہر ان کی دفاع میں بولتے بھی ہیں ۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پیداشدہ ڈیڈلاک کے حوالے سےمقتدر حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے اور جاری محاذ آرائی کو بڑھنے سے کیسے روکا جائے اور اسے کیسے ڈیفیوز کیاجائے کے حوالے سے مشاورتیں اور منصوبہ بندی جاری ہے ۔ اگر ایک طرف حکومت اسٹبلشمنٹ کے مشورے نظرانداز اور ٹس سے مس نہیں ہورہی تو دوسری طرف اسٹبلشمنٹ خود پہل کرکے اپوزیشن سے رابطے کررہی ہے مگر با ہمی بداعتمادی اور بدظنی کی وجہ سے بات ابھی تک آگے نہیں بڑھ رہی ہے ۔
اندرون ملک ایسٹبلشمنٹ پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے ۔ پہلے فوجی آمریتوں کے دور میں عموما تنقید ہوتی تھی۔ مگر اس بار صورتحال یکسر مختلف ہے ۔ اس سلسلے میں پنجاب کی رائے عامہ کی سوچ میں تبدیلی بڑی اہم ہے۔ پنجاب کی سیاسی اشرافیہ اور فوجی اشرافیہ آمنے سامنے آچکی ہے ۔ اور گزشتہ پانچ چھ سالوں میں اس ٹکراو میں شدت آئی ہے ۔ خاص کر عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے یعنی منتخب حکومت کے خلاف سازشوں اور عوام کے ووٹ چوری کرنے کے بعد رائے عامہ تبدیل ہونا شروع ہوا اور میاں نواز شریف کے حالیہ بیانات سے رائے عامہ کی تبدیلی کا عمل تیز ھوا۔ اور اس کے اثرات اب عوامی سطح پر بھی محسوس کی جاسکتی ہے ۔
روایتی طور پر پنجاب کا عمومی مزاج اینٹی اسٹبلشمنٹ نہیں تھا ۔ اور عموما یہ کہنے کو ملتا تھا کہ اسٹبلشمنٹ کی مخالفت پنجاب کے عوام کی ڈی این اے میں نہیں۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کچھ اربن مڈل کلاس پاکٹس تھے جو زیادہ تر شہری علاقوں میں مرتکز تھے ۔ مگر اب حالات بدل رہے ہیں ۔ اب پل کے نیچے سے کافی پانی گزرچکا ہے ۔ اب اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں ننگی مداخلت کی وجہ سے اس پر کھلے عام تنقید فیشن بن رہا ہے ۔ اگر سیاسی محاذ آرائی اس رفتار سے بڑھتی رہی تو پنجاب میں بھی اینٹی اسٹبلشمنٹ رحجانات مزید قوی ہوتے جائینگے۔
اب اسٹبلشمنٹ بیرونی قوتوں کی حمایت سے محروم ہے ۔ ماضی کے برعکس اب اسٹبلشمنٹ کو کسی بھی مہم جوئی اور غیرجمہوری اقدام کیلئے بیرونی قوتوں کی بھرپور حمایت حاصل نہیں ہے ۔ دیگر وجوہات کے علاوہ سفارتی تنہائی اور کئی دوست ممالک سے تعلقات کی خرابی کی ایک وجہ عمران کی نالائقی ، اناپرستی اور ضدی طبعیت بھی ہے ۔ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی نے انڈیا کو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ۔
پہلے پاکستانی اسٹبلشمنٹ مغربی طاقتوں کی سٹرٹیجک منصوبوں کا ایک اہم جُز تھا اور ان کی سٹرٹیجک مفادات کے فروغ اور تحفظ میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا اہم کردار تھا۔ اور مغربی طاقتیں اسٹبلشمنٹ کی آمرانہ مہم جوئی اور روش کے پشت پر ہوتی تھیں اور اس کے جمہوریت دشمن ایجنڈے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرتے تھے۔ اس طرح بعض بااثر خلیجی ممالک مثلا سعودی عرب وغیرہ بھی ایسٹبلشمنٹ کے حمایت کرتے تھے۔
جنرل پرویز مشرف اور اسکے ٹولے نے نوازشریف کی منتخب حکومت پر شبخون مار کر برطرف کیا تھا کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ سانحہ کارگل کی پاداش میں ان کو ذمہ دار ٹھہرا کر کہیں سزا نہ دیجائے ۔ اب اسٹبلشمنٹ کی مسلم لیگ ن خصوصا میاں نواز شریف سے الرجی اور شدید مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کو ڈر ہے کہ مسلم لیگ دوبارہ برسراقتدار آکر کہیں منتخب حکومت کے خلاف سازشیں کرنے اور 2018 کے عام انتخابات میں ووٹ چوری اور پولیٹیکل انجینیئرنگ کے الزام میں ان کو عدالت میں نہ گھسیٹے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ حکومت اور اپوزیشن کے بیچ سینڈوچ بن گئی ہے ۔ اپوزیشن ایسٹبلشمنٹ پر دباؤ بڑھا رہی ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت سے باز آجائیں ۔ اور حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں جبکہ حکومت پوری کوشش کررہی ہے کہ اپوزیشن اور فوج کو آپس میں لڑائے ۔ المیہ یہ ہے کہ حکومت مخالفین کو دبانے کیلئے جو بھی کاروائی کرتی ہے اپوزیشن اسٹبلشمنٹ کو بھی اس کیلئے قصوروار ٹھہراتی ہے اور اس کی تنقید کی توپوں کا رخ حکومت سے زیادہ اسٹبلشمنٹ کی طرف ہے ۔
کیا عمران خان اسٹبلشمنٹ کی کمزوری یا مجبوری بن گئے ہیں ؟ کیا اپوزیشن کی سخت موقف کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ؟ کیا اسٹبلشمنٹ اپوزیشن کے مطالبے پر اپنے آپ کو آئینی مینڈیٹ تک محدود کر لے گی اور دیگر اداروں میں مداخلت سے ھاتھ کھینچ لے گی ؟ ان سوالات کا مستقبل قریب میں جو بھی جوابات ملے مگر سول–ملٹری تعلقات کا پلڑا اوّل الذکر کے حق میں ہوگا کیونکہ اب حالات بہت حد تک اسٹبلشمنٹ کے حق میں نہیں رہے۔
♠