منیر سامی
کل ممتاز بلوچ حق پرست ، کریمہ بلوچ ،ؔکی تدفین کی خبر سن کر اور اس کے سوگواروں کے ساتھ زیادتی کے بارے میں جان کر ہمیں ملکہ نور جہاں کے مقبرہ کی لوح پر لکھا،یہ شعر شدت سے یاد آیا :
بر مزارِ غریباں ما غریباں، نے چراغے نہ گُلے
نے پر ِ وانہ سوزد ، نے نوائے نہ نوائے بلبلے
اس شعر کے عام معنی یہ ہیں کہ، ہم غریبوں کے مزار پر نہ پھول ہوتے ہیں ، نہ چراغ اور نہ ہی وہاں بلبلیں گیت گاتی ہیں۔روایت ہے کہ ، یہ شعر خود بر ِ صغیر کی مشہورِ عالم ملکہ ہی نے کہا تھا۔ جو شہنشاہ جہاں گیر کے دل کی رانی تھی۔ ہمارے لا شعور میں یہ شعر یہ شاید اس نسبت سے ابھرا ہوکہ، کریمہ بلوچ بلا شبہ بلوچستان کی شہزادی تھی، اور حق کے طلبگار ہر بلوچ کے دل کی رانی بھی ۔ جنہوں نے اسے دیکھا ہوگا انہیں اس میں رانیوں اور شہزادیوں ہی کا جیسا وقار ، اور ان ہی کی جیسی تمکنت نظر آتی ہو گی۔
ملکہ نو ر جہاں کے مزار کے بارے میں بڑے بڑے شاعروں نے بے مثال شعر لکھے ہیں۔ ان میں ایک اہم شاعر ، تلوک چند محروم بھی تھے ۔ انہوں نے اس مزار کو دیکھ کہا تھا کہ،
ایسی کسی جوگن کی بھی کٹیا نہیں ہوتی
ہوتی ہو مگریوں سرِ صحرا نہیں ہوتی
اور ساحر لدھیانوی نے نور جہاں کی قبر کے بارے میں لکھا تھا:
کتنے خوں ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتہ دیتی ہے
آپ ان اشعار کو کریمہ بلوچ کی زندگی ، موت، اور تدفین کے تناظر میں دیکھیں تو یاد آئے گا، کہ ان کو ظالموں نے کس طرح سے زچ کیا تھا کہ وہ ترکِ وطن اور ہجرت پر مجبور ہوئی تھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مسلمانوں کے رسول حضرت محمد ؐ نے بھی مکہ سے مدینہ کی طرف کفارِ مکہ کی زیادتیوں پر ہی ہجرت کی تھی اس عزم کے ساتھ کہ جہاں بھی رہیں گے حق کی پیغمبری جاری رہے گی۔ اور شہیدِ اعظم حضرت امام حسین ؑ بھی اپنے وقت کے یزیدوں کے ظلم پر ہی حق کا عَلَم اٹھائے کربلا کی طرف اسی لیے گئے تھے کہ وہ حق کی بات کرتے ہوئے جان دے دیں گے، لیکن ظلم کے ہاتھ پر بیعت نہیں کریں گے۔
کریمہ بلوچ بھی انہی عظیم رسول کی پیرو تھی، اور ان ہی شہید حق کی مریدہ بھی۔ سو اس نے ترکِ وطن کا فیصلہ اس مضبوط ارادے کے ساتھ کیا تھا کہ میں جہاں بھی رہوں گی بلوچوں کے حق کی طلبگار اور عمل پرست رہوں گی۔ اسے خوب معلوم تھا کہ حق کے راستے کی ہر راہ مقتل سے گزر کر جاتی ہے۔
ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جو گواہی دیتے ہیں کہ کینیڈا میں پناہ گزین ہونے کے بعد ان کی زندگی کا ہر لمحہ بلوچ حقوق کی آواز اٹھاتے گزرا۔ ہم جیسے کئی لوگ تو صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں لیکن انگلی تک کٹوانے کی ہمت نہیں کرتے ۔پھر ہم سب کے لیے یہ خبر آئی کہ کریمہ بلوچ کینیڈا میں ایک جھیل کے کنارے پراسرار طور پر مردہ پائی گئی تھیں۔ ٹورونٹو پولیس نے ایک عمل پرست جلاوطن کی پر اسرار موت کی تحقیق میں زیادہ وقت لگائے بغیر چند گھنٹوں میں یہ فیصلہ سنا دیا کہ ان کی موت میں کوئی مجرمانہ عمل نظر نہیں آیا۔ پولیس نے یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ، کیوں اسی طرح کے ایک اور بلوچ عمل پرست ساجد بلوچ کی لاش بھی ایسے ہی یورپ کے ایک دریا کے کنارے پائی گئی۔۔
کریمہ بلوچ کی موت پر ہم سب کو بلوچستان میں کتنی ہی کچلی ہوئی جانوں کی یاد آتی ہے۔ اور یہ بھی لگتا ہے کہ ان کی خوں ریز موت پر خود ا ن کے اپنوں نے ان کی موت کی حقیقت کیسے زیرِ نقاب کرنے کی کوشش کی۔ لوگوں نے یہ افواہ بھی سنی کہ سکینہ بلوچ ظالم عسکری قوتوں کے ظلم کے ساتھ ساتھ ، شاید گھر میں بھی زیادتیاں جھیل رہی تھیں۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ان کی موت کے بار ے میں کسی بھی وکیل نے پولس اور حکام کے سامنے مناسب پیروی نہیں کی اور نہ ہی حکام پر دباؤ ڈالا۔
بیرونِ ملک عمل پرست پناہ گزینوں کی پرا سرار اموات کی تحقیق سے ہر میزبان حکومت کنارہ کشی کی کوشش کرتی ہے۔ ان کے سامنے سفارتی اور عسکری مصلحتیں ہوتی ہیں۔ ایسے معاملوں میں قابل وکیلوں اور عمل پرستوں کے دباؤ کی ضروت ہوتی ہے، جن کو گھر والوں کا مکمل تعاون درکا ر ہوتا ہے۔کینیڈا میں لگتا تھا کہ یہاں کریمہ بلوچ کے اپنے بھی اس معاملے کو جلد نبٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔ شاید ان پر بھی غیر مرئی دباؤ ہوں۔ہمیں اس معاملہ میں اس طرح کی اموات کے بارے میں پیروی کرنے والا کوئی معروف وکیل بھی دکھائی نہیں دیا۔
آپ کو کریمہ بلوچ کے بارے میں کچھ بھی پڑھتے وقت یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ جب ٹورنٹو پولس نے کئی ہفتوں کی تاخیر کے بعد ا س لا ش اہلِ خانہ کے حوالے کی ، تو انہیں نے فوراً ہی اسے پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔ اس سارے عرصہ میں کینیڈا میں جہاں ان کا شوہر اور ان کے بھائی موجود تھے ، کسی قرآن خوانی یا غائبانہ جنازے کےاہتما م بھی نہیں کیاگیا۔ آج کل کے حالات کے باوجود ایسا سب کچھ” زوم” پر یعنی آن لائن پر بھی کیا جاتا ہے۔ ہم نے خود اسے کئی جنازوں اور قرآن خوانیوں میں زوم پر ہی شرکت کی ہے۔
دنیا کے کئی اہم اخباروں نے جن میں بی بی سی، اور گارڈین وغیرہ شامل ہیں یہ خبر بھی دی کہ کراچی ایئر پورٹ پر حکام نے ان کی لاش ورثا کے حوالے کرنے میں تاخیر کی اور یہ فیصلہ کیا کہ اسے غیر معروف راستوں سے کریمہ کے گاؤں بھیجا جائے گا۔ اہلِ خانہ کے احتجاج پر یہ دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے اصرار کیا تو لاش کو کینیڈا واپس کر دیا جائے گا ۔
پھر لاش اور اہلِ خانہ حکام کی نگرنی میں بلوچستان پہنچے ۔ جہاں ہزارو ں سوگواروں کو ان کے جنازے بلکہ غائبانہ جنازے تک میں شرکت سے روکا گیا۔ اس روک تھام اور سختی کی تصاویر اور ویڈیو فوراً ہی دنیا میں پھیل گیئں ۔ ہمیں یقین ہے کہ کریمہ بلوچ کی تدفین کے بعد بھی حکا م اس کی قبر کی زیارت کرنے والوں ، قبر پر دیئے جلانے والوں، اور پھول ڈالنے والوں پر قدغنیں لگائیں گے۔
یہی وہ منظر ہے جسے نظر میں رکھ کر ہم نے اپنی اس تحریر کا عنوان چنا تھا ۔ ہمارے حکام کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اس طرح کی زیادتیا ں دنیا میں کہیں بھی نہیں پنپتیں۔ حکام کا نام تو لوگ بھول جاتے ہیں، لیکن کریمہ بلوچ جیسے شہیدوں کی یاد ہمیشہ مظلوموں کے ارادے مضبوط کرتی ہے۔۔
♣
One Comment