سیاست دانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے قومی اسمبلی کی طرف سے جبری گمشدیوں سے متعلق بل کے مسترد کیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور اسے ملکی سیاسی جماعتوں کے غیرسنجیدہ رویے کا عکاس قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کا دعوی ہے کہ ملک میں سینکڑوں افراد کو لا پتہ کر دیا گیا ہے لیکن حکومت اس دعوے کو مسترد کرتی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی طرف سے پیش کیے جانے والے اس بل میں تجویز کیا گیا تھا کہ جو افراد جبری گمشدگی میں ملوث ہوں، انہیں عمر قید کی سزا دی جائے اور ان پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے۔ حکومت نے پہلے اسے امن وامان کا مسئلہ قرار دیا اور موقف اختیار کیا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے اور بعدازاں بل کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔
انسانی حقوق کی سب سے بڑی پاکستانی تنظیم ایچ آر سی پی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی کا معاملہ پاکستان میں تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے اور یہ افسوس کی بات ہے کہ عوامی نمائندے نہ اس پر بات کرنے اور نہ ہی اس کے خلاف قانون سازی کرنے کے لیے تیار ہیں، ”یہ رویہ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ تمام جماعتوں نے جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق سے متعلق دیگر مسائل کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اصولا تو پی پی پی، ن لیگ اور دوسری سیاسی جماعتوں کو اس بل کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے تھی لیکن ہماری سیاسی جماعتیں عوامی مسائل سے لا تعلق ہیں۔ اس لیے کوئی جماعت اس پر بات کرنا نہیں چاہتی‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کسی مہذب معاشرے میں لوگوں کے لاپتہ ہونے کا تصور نہیں کیا جا سکتا، ”لیکن یہاں بلوچستان میں اور اندرون سندھ میں جبری گمشدگیوں کے واقعات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایچ آر سی پی نے بھی اس پر رپورٹیں شائع کیں لیکن حکمراں اور سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں‘‘۔
سابق رکن قومی اسمبلی بشری گوہر کا کہنا ہے کہ یہ بات انتہائی شرمناک ہے کہ بل پر بحث کے بغیر ہی اسے مسترد کر دیا گیا، ”اس بل کو متعلقہ کمیٹی کی پاس بھیجا جانا چاہیے تھا تاکہ وہ اس پر مکمل طور پر غور و خوض اور مشاورت کرتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور جو لوگ جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں انہیں بھی ریاستی ادارے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ اس معاملے پر لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ اسے قانون بنا کر ریاستی اداروں کو قانون کے دائرے میں لانا پڑے گا‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بل کے مسترد ہونے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پارلیمنٹ کمزور ہے، ”پارلیمنٹ نے اپنے آئینی اختیارات اور ذمہ داریاں سکیورٹی اداروں کے آگے سرنڈر کر دیے ہیں اور وہ لوگوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ قانون سازی کے معاملات میں فون پر ہدایات لی جاتی ہیں‘‘۔
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے، ” پی ٹی آئی تو حکومت میں ہے لیکن پی پی پی، ن لیگ اور پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو تو اس بل کی موثر حمایت کرنی چاہیے تھی۔‘‘انہوں نے اس حکومتی دعوے کو مسترد کیا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے،”یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ یہ آئین میں دیے گئے حقوق کا معاملہ ہے۔ حکومت اس اہم مسئلے کو ایسے نہیں ٹال سکتی۔ جب تک اس میں ملوث لوگوں کو سزائیں نہیں ملیں گی، یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا‘‘۔
جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے رہنما جلال الدین کا کہنا ہے کہ سیاسی اتحاد اقلیت میں ہے، ”ہم اس بل کی حمایت کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اقلیت میں ہیں۔ اور پی ٹی آئی کچھ کرنا نہیں چاہتی کیونکہ اس کو اسٹیبلشمنٹ لائی ہے، جو اس کام میں بھی ملوث ہے اور قومی اسمبلی بھی ان کے دباو میں ہے۔ اس لیے یہ مسئلہ جو کے پی اور بلوچستان میں شدت اختیار کر گیا ہے، حل نہیں ہو پا رہا۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بل فوج کے خلاف سازش تھی، جسے مسترد کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور ایم این اے محمد اقبال خان کہتے ہیں، ”محسن داوڑ نے یہ بل پیش کیا تھا، جو ایک فوج دشمن آدمی ہے اور ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف بولتا ہے۔ اگر وہ کسی اور ملک میں ہوتا تو اسے وہاں کی حکومت کب کا ختم کر چکی ہوتی۔ وہ شکر کرے کہ وہ پاکستان میں ہے اور میں مشکور ہوں کہ حکومت اور اداروں نے اسے کچھ نہیں کہا حالانکہ اس نے کئی بار جلسوں اور جلوسوں میں ملکی اداروں کے خلاف زہر اگلا۔ یہ بل پیش کر کے وہ فوج کو بدنام کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس بل کو مسترد کیا گیا‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بل کی کوئی ضرورت نہیں، ”گمشدہ افراد کا جو شور مچایا جا رہا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ افغانستان یا دوسرے ممالک میں بھاگ گئے ہیں۔ اگر کسی کے کسی بندے کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہے، تو اس کے لیے فورمز موجود ہیں۔ وہ فوج کے سیکڑ کمانڈر یا سویلین اداروں سے رابطہ کر کے وہاں فارم بھر کر پوری اطلاعات دے سکتا ہے اور اگر کوئی شخص جرم میں ملوث ہوا تو اس کا بتا دیا جائے گا کہ وہ کس پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کے پاس ہے۔ اس کے لیے مزید کسی بل کی ضرورت نہیں‘‘۔
dw.com/urdu