یورپ میں کچھ کیڑے مکوڑوں کو انسانی غذا کا حصہ بنانے کی منظوری

یورپی فوڈ سیفٹی ایجنسی نے میل ورمس کو پاستہ میں پاؤڈر کی شکل یا پھر ثابت طور کھانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اٹلی کے شہر پارما میں واقع یورپی یونین کے نگراں ادارے یورپیئن فوڈ سیفٹی ایجنسی‘ (ای ایف ایس اے) نے میل ورمس یعنی طعمی کیڑوں کو باضابطہ طور بطور غذا استعمال کرنے کی منظوری دے دی۔ یہ شہر اپنے لذیذ پاستہ، ٹماٹر، ہیم اور چیز کے لیے معروف ہے۔ ماہرین کی نظر میں یہ کیڑے مکوڑے غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں اور انسانی صحت کے لیے اچھے ثابت ہوئے ہیں۔

اگر یورپی کمیشن کی جانب سے بھی اس منظوری کی توثیق ہوجاتی ہے تو یہ پیلے رنگ کے کیڑے مکوڑے یورپی ممالک کے فوڈ اسٹورز میں دستیاب ہونا شروع ہو جائیں گے۔ فوڈ ایجنسی کے مطابق یہ کیڑے پروٹین، چربی اور فائبر جیسے اجزاء سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان کیڑوں یا پھر اس کے پاؤڈر کو اسنیکس یا نوڈلز میں ڈال کربھی  کھایا جا سکتا ہے۔

پارما یونیورسٹی کے محقق جیوانی سوگاری کہتے ہیں کہ یورپ کے اکثر لوگوں کو کیڑوں سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ تاہم دنیا کے کئی افریقی اور ایشیائی ممالک میں مختلف طرح کے کیڑے مکوڑے کھانا ایک عام سی بات ہے۔ ان کے مطابق وقت کے ساتھ لوگوں کی عادتیں بدلتی ہیں اور اس معاملے میں بھی  لوگوں کا رویہ تبدیل ہوسکتا ہے‘‘۔

یورپی ملکوں جرمنی اور آسٹریا میں بعض نمکین غذاؤں  کے تیاری میں کیڑوں کا پہلے ہی استعمال ہوتا ہے۔یورپی حکام کا کہنا ہے کہ سائنسی برادری کے ساتھ ساتھ فوڈ کی صنعت سے وابسطہ کاروباری حلقوں کو ایک عرصے سے قابل غذا کیڑوں میں کافی دلچسی رہی ہے۔

کھانے کی نئی اقسام کی منظوری اور اس سے ممکنہ خطرات کے تجزیے کے لیے ایجنسی کو تقریبا ڈیڑھ سو درخواستیں دی گئی تھیں جس میں سے پندرہ کیڑوں کی اقسام بھی تھیں۔ لیکن ان سب میں سب سے پہلے میل ورمس یعنی طعمی ودود کو منظوری دی گئی ہے۔

ماہرین کے خیال میں دنیا بھر کیڑوں مکوڑوں کی کئی اقسام کو انسانی غذا کے طور پہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شاید اسی لیے غذا اور کاشتکاری سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائیزیشن‘ (فاؤ) نے سن 2013 میں کہا تھا کہ کیڑے کھانے سے غذائی عدم تحفظ میں کمی لائی جاسکتی ہے‘‘۔

اقوام متحدہ کے مطابق ایسے کیڑے حیاتیاتی فضلہ کھا کر بھی پنپ سکتے ہیں اور دیگر مویشیوں کے مقابلے میں جہاں ان کی افزائش میں بہت کم پانی استعمال ہوتا ہے وہیں ان کی کاشت بھی آسان ہے۔

dw.com/urdu

Comments are closed.