پاکستان کی سینیٹ نے وراثتی جائیداد میں عورت کے حصے سے متعلق تنازعات اور مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کا ایک بل پاس کیا ہے۔ کئی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ وراثتی جائیداد میں عورت کا برابر کا حق ہونا چاہیے۔
پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں اور جائیداد کے حوالے سے بھی گزشتہ برس کچھ قوانین بنائے گئے تھے، جن میں اب کچھ ترامیم کی گئی ہیں۔
یہ بل پیر کو وزارت انصاف و قانون کی قائمہ کمیٹی نے منظور کیا۔ بل کے محرک سینیٹر جاوید عباسی نے اس بل کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”پاکستان میں وراثتی جائیداد میں خواتین کے حق کے حوالے تنازعے اور مقدمات برسوں عدالتوں میں چلتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے پہلے بھی قانون سازی ہوئی ہے اور موجودہ بل نے انہی قوانین میں ترمیم کی ہے، جس کے مطابق محتسب اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ کسی بھی تنازعے کو ساٹھ دن میں طے کریں ورنہ وہ یہ مقدمہ مقامی عدالت میں بھیجیں، جہاں جج ساٹھ دن میں اس کا فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ قانون میں مقدمے کا فیصلہ کرنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہے، ”جس کی وجہ سے خواتین کو اپنا حصہ لینے کے لیے کئی برس تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اب ہم نے ایک ٹائم فریم طے کیا ہے اور حکومت کو کہا ہے کہ وہ ایک اسپیشل جج ایسے مقدمات کے لیے مقرر کرے، جیسا کہ نیب میں خصوصی جج ہے، تاکہ ایسے مقدمات کا فیصلہ جلد از جلد ہوجائے‘‘۔
لیکن کئی ناقدین اس بل کو خواتین کے لیے ناکافی قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق اس بل نے خواتین کے مساویانہ حصے پر کوئی بات نہیں کی۔ جاوید عباسی نے اس بات کی وضاحت کی کہ بل میں خواتین کے شرعی حصے کی بات کی گئی ہے، جو ملک کے لبرل حلقے کے خیال میں غیر مساویانہ ہے۔
جاوید عباسی اس شرعی حصے کی حمایت کرتے ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے وائس چیئرپرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ وراثتی جائیداد سے متعلق تنازعات کے فیصلے کے لیے وقت کا تعین مثبت بات ہے لیکن حکومت کو آگے بڑھ کر وراثت میں عورت کے برابر حصے کی بات بھی کرنی چاہیے،”میرے خیال میں وراثت میں عورت کے غیر مساوی حصے کا تصور مذہبی سے زیادہ پدرسری ہے اور اگر پارلیمنٹ میں مساویانہ حصے کا کوئی قانون آتا ہے تو سارے جاگیردار، چاہے وہ مذہبی ہوں یا لبرلز، وہ اس کی بھرپور مخالفت کریں گے لیکن اس قانون کا جدید جمہوری دور میں کوئی جواز نہیں ہے، جہاں مرد اور عورت کی برابری بہت ضروری ہے‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں عورت پہلے ہی مظلوم ہے،”ضرورت تو اس امر کی ہے کہ عورت کو وراثتی جائیداد میں زیادہ حصہ ملے کیونکہ وہ گھر سے باہر نہیں نکلتی اور مالی طور پر خود کفیل بھی نہیں ہوتی۔ اگر زیادہ نہیں دے سکتے تو کم ازکم برابر کاحصہ تو دیں۔ اسے برابر کے حصے سے محروم کرنا اس کو مالی طور پر شدید نقصان پہنچانے کے مترادف ہے‘‘۔
معروف سیاست دان اور سابق رکن قومی اسمبلی بشری گوہر بھی اسد بٹ کی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ اس بل پر رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس بل پر سینیٹ میں بھرپور بحث ہونی چاہیے اور وراثتی جائیداد میں خواتین کا برابر کا حصہ ہونا چاہیے۔ خواتین کا غیر مساوی حصہ آئین اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی معاہدوں کے خلاف ہے‘‘۔
سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی سابق سربراہ نسرین جلیل کا کہنا ہے کہ اصولی طور پر تو خواتین کو وراثت میں مساویانہ حق ملنا چاہیے،”لیکن ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں، جہاں کے قوانین کو ماننا ہمارے لیے ضروری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ آدھا حصہ بھی خواتین کو نہیں ملتا۔ عورت کی قرآن سے شادی کردی جاتی ہے یا اسے غیر شادی شدہ رکھا جاتا ہے تاکہ جائیداد میں اس کو آدھا حصہ بھی نہ ملے۔ تو اس مسئلے پر قانون سازی سے پہلے بڑے پیمانے پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین ارکان اسمبلی اس غیر مساویانہ حصے کے حوالے سے اس لیے بات نہیں کرتی کیونکہ ان کے لاشعور میں کہیں رجعت پسند قوتوں کا خوف بیٹھا ہوا ہے،”اگر اس پر بات ہوگی تو رجعت پسند قوتوں کی طرف سے بھرپور مخالفت آئے گی تو شاید اس خوف سے خواتین ارکان اسمبلی نے اس مسئلے کو نہیں اٹھایا۔ تاہم ملک کے لبرل حلقے اس غیر مساویانہ تقسیم کی مخالفت کرتے ہیں، جو ان کے خیال میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کے خلاف ہے‘‘۔
dw.com/urdu