پاکستان کی وفاقی حکومت نے براڈ شیٹ کے معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی انکوائری کمیٹی کی سربراہی عدالت عظمیٰ کے سابق جج جسٹس عظمت سعید شیخ کو سونپ دی ہے۔خیال رہے کہ براڈ شیٹ نامی ایک کمپنی اور اس کے سربراہ کاوے موسوی نے پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے نیب کے بارے میں حال ہی میں متنازعہ بیانات دیے ہیں۔
کاوے موسوی کی طرف سے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب حال ہی میں براڈ شیٹ ایل ایل سی نے پاکستانی حکومت کے خلاف برطانیہ میں ثالثی کا ایک مقدمہ جیتا ہے۔ اس کے بعد عدالتی حکم پر انھیں برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانے کے بینک اکاؤنٹ سے لگ بھگ 29 ملین ڈالر کی رقم ادا کی گئی ہے۔
کاوے موسوی نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ انھوں نے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے خاندان سمیت کئی پاکستانی سیاستدانوں کے بیرونِ ممالک میں بنائے گئے لاکھوں ڈالر مالیت کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثہ جات کا سراغ لگا لیا تھا۔ لیکن نیب نے اپنے طور پر ان سے ڈیل کر لی اوربراڈ شیٹ کو فیس ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
حکومت پاکستان نے کاوے موسوی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے جسٹس عظمت سعید کو تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ تعینات کیا ہے جو اس معاملے کی تحقیق کرے گی۔ یاد رہے کہ اس وقت جسٹس حمید اسی ادارے نیب کے پراسکیوٹر جنرل تھے۔
جسٹس عظمت سعید کا شمار پروفیشنل وکلا میں ہوتا تھا وہ بار کی سیاست میں ترقی پسند وکلا پرمشتمل گروپ کے قریب سمجھے جاتے تھے۔انھوں نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کا الیکشن لڑاجو وہ ہارگئے تھے۔
سال 1996 میں مسلم لیگ جونیجو اور پیپلزپارٹی کی مخلوط پنجاب حکومت نے انھیں ایل ڈی اے کا قانونی مشیر کیا تھا جب پیپلزپارٹی حکومت کو صدر فاروق لغاری نے ڈسمس کرکے الیکشن کرائے اور مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی تو سیف الرحمان نے انھیں 1997 میں احتساب بیورو کا سپیشل پراسیکیوٹر مقرر کیا تھا۔
جب نواز شریف حکومت کو جنرل پرویز مشرف نے ڈسمس کیا اور نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف کرپشن مقدامات چلانے کے لئے احتساب بیورو کو نیب کا نام دیا تو جسٹس ( ر) عظمت سعید کو ایک سال کے لئے ڈپٹی پراسیکیوٹر مقرر کیاگیا تھا۔ بعد ازاں 2001 میں انھیں سپیشل پراسیکیوٹر نیب مقرر کردیا گیاتھا۔ ان دنوں نیب کے پراسیکیوٹر فاروق آدم فوجی پس منظر کے حامل تھے۔ انھیں بھٹو کے خلاف فوجی سازش میں حصہ لینے کے الزام میں جنرل ضیا کی سربراہی میں قائم خصوصی فوجی عدالت نے سزا دی تھی۔
ان کی خدمات سے خوش ہوکر انھیں جنرل پرویز مشرف نے لاہور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا اور پھر وہ چند ماہ کے لئے 2011۔2012 میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے۔
انھوں نے جسٹس افتخار چوہدری کی عدلیہ بحالی تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور اپنا پورا زور جسٹس افتخار چوہدری کے پلڑے میں ڈالا تھا۔یہ جسٹس افتخار ہی تھے جو انھیں سپریم کورٹ لے کر گئے اور وہاں انھوں نے وہی کچھ کیا جو جسٹس افتخار نے چاہا۔ وہ جسٹس چوہدری کے ہر اس فیصلے کی تائید و حمایت کرتے تھے۔ ان دنوں سپریم کورٹ کے ججز بارے محترمہ عاصمہ جہانگیر کہا کرتی تھیں کہ یہ 12 جڑواں بہنیں ہیں جو ایک ہی طرح سوچتی اور ایک ہی طرح ایکٹ کرتی ہیں۔
شیخ عظمت سعید اس لارجر بنچ کا حصہ تھے جس نے نواز شریف کو سزادے کر وزارت عظمی سے فارغ کیا تھا۔ اور اب انھیں براڈشیٹ کے امور کی انکوائیری کا سربراہ بنادیا گیا ہے۔ یہ کھلم کھلا مفادات کے ٹکراوکا معاملہ ہے۔
جسٹس عظمت سعید، راولپنڈی کے ہتھ بندھے کارندے ہیں اوروہ اپنی ترقی کا کریڈٹ راولپنڈی کو دیتے اور اسی کے ممنون ہیں۔ انہی کا اشیر باد ہے کہ عمران خان ان کی تابعداری کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور انھیں شوکت خانم کے بورڈز گورنرز کا رکن بنایا ہوا ہے۔
بی بی سی اردو،لیاقت علی، نیٹ نیوز