حالیہ جائزوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ پورے مشرق وُسطیٰ اور ایران میں، قریب نصف آبادی اسلام سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ حکومتیں مذہب میں بطور ایک ادارہ اصلاحات کے مطالبات سے مختلف طریقوں سے نمٹ رہی ہیں۔
مشرق وُسطیٰ میں بہت کم ہی ایسے موضوعات ہیں جو اسلام کی طرح بہت نازک معاملات گردانے جاتے ہیں۔ سرکاری طور پر عرب ریاستوں میں اکثریت مسلم آبادی کی ہے۔ اس کی شرح مختلف ہے جیسے لبنان میں 60 فیصد جبکہ اردن اور سعودی عرب میں قریب 100 فیصد۔ کیونکہ ان ممالک کے مذہبی ادارے حکومتی اداروں کے طور پر بھی کام کرتے ہیں، اسی لیے حکومتیں لوگوں کی مذہبی زندگی میں بھی بہت عمل دخل رکھتی ہیں، جیسا کہ اکثر عبادات، میڈیا اور اسکولوں کے نصاب وغیرہ پر حکومتی کنٹرول یا اختیار ہوتا ہے۔
تاہم مشرق وُسطیٰ اور ایران میں کیے گئے کئی ایک حالیہ تفصیلی سرویز یا جائزوں سے کم و بیش ایک ہی جیسے نتائج سامنے آئے ہیں۔ ان سب میں سیکولرائزیشن یا مذہب سے دوری کے ساتھ ساتھ مذہبی اور سیاسی اداروں میں اصلاحات کے بڑھتے ہوئے مطالبے شامل ہیں۔
لبنان میں کرائے گئے سروے میں 25 ہزار افراد سے رائے لی گئی۔ یہ سروے عرب بیرومیٹر نامی ادارے نے کیا جو پرنسٹن یونیورسٹی اور میشی گن یونیورسٹی کا ایک ریسرچ نیٹ ورک ہے۔ اس سروے کے مطابق، ”گزشتہ ایک دہائی کے دوران ذاتی تقوے میں کمی واقع ہوئی ہے، اور اب ایک تہائی سے بھی کم ایسی آبادی ہے جو خود کو مذہبی قرار دیتی ہے‘‘۔
تاہم لبنان میں کسی بھی ایک مذہب سے نا جڑے ہونا نا ممکن ہے۔ کیونکہ آبادی کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے میں کسی بھی شخص کو اپنی شناخت کے ساتھ اپنی مذہبی وابستگی بھی بتانا ہوتی ہے۔ اور اس سلسلے میں جو 18 مختلف ممکنات درج ہیں ان میں ‘غیر مذہبی‘ کی آپشن موجود نہیں۔
ایران میں ‘گروپ فار اینالائزنگ اینڈ میژرنگ ایٹیچوڈز اِن ایران‘ (گامان ) کی طرف سے کرائے گئے سروے میں 50 ہزار ایرانی شہریوں سے سوالات کیے گئے۔ اس سروے سے معلوم ہوا کہ ان میں سے 47 فیصد افراد نے بتایا کہ ان میں ”مذہبی ہونے سے غیر مذہبی ہونے کی طرف تبدیلی آئی ہے‘‘۔
ایرانی مردم شماری کے مطابق ملک میں 99.5 فیصد آبادی شیعہ مسلمانوں کی ہے۔ تاہم “گامان” کی طرف سے کرائے گئے سروے میں شریک افراد کی 80 فیصد تعداد کا کہنا تھا وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں تاہم صرف 32.2 فیصد نے اپنی شناخت شیعہ مسلمان کے طور پر کرائی۔
اعداد وشمار کے مطابق ان میں سے نو فیصد نے خود کو لادین، آٹھ فیصد نے زرتشت، سات فیصد نے روحانی، چھ فیصد نے لادری جبکہ پانچ فیصد نے خود کو سنی مسلمان کے طور پر ظاہر کیا۔ سروے میں شامل قریب 22 فیصد افراد نے ان میں سے کسی بھی گروپ سے اپنا تعلق نہیں بتایا۔
ماہر سماجیات اور میشیگن یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر رونالڈ انگلیہارٹ لوینشٹائن ‘ریلیجیئس سڈن ڈیکلائن‘ نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ انہوں نے دنیا کے قریب سو ممالک میں کرائے گئے مختلف جائزوں کا تجزیہ کیا ہے جو 1981-2020 کے درمیان کرائے گئے۔ پروفیسر انگلیہارٹ کے بقول مذہب سے بڑھتی ہوئی یہ دوری صرف مشرق وُسطیٰ تک ہی محدود نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘کچھ بھی نہیں‘ جیسے لوگوں کی، یعنی ایسے افراد جو کسی بھی خاص مذہب سے اپنا تعلق نہیں بتاتے، ان کی بڑھتی ہوئی تعداد مشرق وسطیٰ سے باہر مسلم اکثریتی ممالک میں بھی دیکھی گئی ہے جن میں عراق، تیونس اور مراکش وغیرہ بھی شامل ہیں۔
dw.com/urdu