لیاقت علی
جسٹس شیخ انوارالحق کا شمار پاکستان کی عدلیہ کے ان ججزمیں ہوتا ہے جنھوں نے اپنےعدالتی کئیرئیرمیں تین مارشل لاحکومتوں سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا اور ایک مارشل لا حکومت کو سپریم کورٹ کے چیف جستس کے طورپرقانونی اور آئینی جوازبھی فراہم کیا تھا۔ شیخ انوارلحق نے بطورچیف جسٹس سپریم کورٹ بھٹو کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کی تھی جس سے بھٹو کوفوجی جنتا کے لئے پھانسی لگانا آسان ہوگیا تھا۔
جالندھرمیں پیدا ہونے والے شیخ انوارالحق نے عملی زندگی کا آغازانڈین سول سروس میں شمولیت سے کیا تھا۔ انھوں نےپنجاب کے متعدد اضلاع میں اسٹنٹ کمشنر کے طورخدمات سرانجام دیں۔ ان دنوں انتظامی عہدوں پر فائز افسران عدلیہ کو جائن کرنے کا آپشن استعمال کرسکتے تھے۔ چنانچہ شیخ انوارالحق نے یہ آپشن استعمال کرتے ہوئے قیام پاکستان سے قبل ہی عدلیہ جائن کرلی تھی۔ وہ پنجاب کے متعدد اضلاع میں بطور سیشن جج خدمات سر انجام دیتے رہے۔
جب جنرل ایوب خان نے آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو شیخ انوارالحق کو 21۔اکتوبر 1959 کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کردیا۔جب جنرل یحیی خان نےمارچ1969 میں جنرل ایوب کا آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کیا اور ون یونٹ توڑ کو صوبے بحال کئے تو شیخ انوارالحق لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے تھے۔ بھٹودورمیں وہ سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ مارچ 1977 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب علی خان کو ریٹائیرہونا تھا لیکن بھٹو نے چھٹی آئینی ترمیم کے ذریعے جسٹس انوارالحق کا راستہ روک دیا جو اس وقت سپریم کورٹ کے سنئیر ترین جج تھے ۔
بھٹو کا یہ اقدام جسٹس انوارالحق کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ چنانچہ وقتی طور پر انھوں خاموشی اختیار کرنے ہی میں عافیت جانی اورمناسب موقع کی تلاش میں رہے تاکہ وہ جوابی وار کرسکیں۔ جلد ہی انھیں یہ موقع جنرل ضیا کے مارشل کی صورت جولائی1977 میں مل گیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے آئینی پٹیشن کے ذریعے جنرل ضیا کے مارشل لا کے نفاذ کوسپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ جسٹس یعقوب علی خان نے بیگم صاحبہ کی یہ پٹیشن سماعت کے لئے منطور کرلی تھی۔ فوجی جنتا کو خوف تھا کہ کہیں سپریم کورٹ مارشل لا کو غیر آئینی اور غیر قانونی ہی نہ قرار دے دے۔ چنانچہ جنرل ضیا نے مارشل لا ریگولیشن کے ذریعے چھٹی آئینی ترمیم کو واپس لے لیا جس سے جسٹس یعقوب علی خان فوری طور پر ریٹائر ہوگئے اور شیخ انوارالحق ان کی جگہ چیف جسٹس بن گئے۔اب بھٹو پر وار کرنے کی ان کی باری تھی۔ بیگم نصرت بھٹو کی مارشل لا کے نفاذ کے خلاف پٹیشن ان کے سامنے پیش ہوئی اور انھوں نے مارشل لا کے نفاز کو آئینی جواز فراہم کرتے ہوئے بیگم صاحبہ کی پٹیشن مسترد کردی ۔
قانونی حلقوں میں یہ کہانی مشہور ہے کہ مارشل لا کے حق میں 10نومبر1977 کو فیصلہ سنانے سے کچھ گھنٹے قبل فوجی جنتا کے وکیل اے۔کے بروہی جسٹس شیخ انوارالحق سے ملے اور ان سے ممکنہ فیصلے بارے پوچھا۔ شیخ انوارالحق نے اے۔کے بروہی سے کہا کہ عدالت مارشل لا کے نفاذ کو آئینی جواز فراہم کرنے جارہی ہے جس پر بروہی نے پوچھا کہ کیا عدالت جنرل ضیا کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے رہی ہے یا نہیں؟ جس پر شیخ انوارالحق نے کہا کہ نہیں۔
شیخ انوارالحق کا یہ جواب سن کر بروہی نے کہا کہ عدالت اپنا فیصلہ چند گھنٹوں کے لیے موخر کرلے ۔ شیخ انوارالحق نے پوچھا وہ کیوں؟ بروہی نے کہا تاکہ لاہور سے سابق چیف جسٹس یعقو ب علی خان کو اسلام آباد واپس لا کرچیف جسٹس سپریم کورٹ بنایا جاسکے کیونکہ اگر جنرل ضیا کو آئین میں ترمیم کا اختیار نہیں ہوگا تو انھوں نے چھٹی آئینی ترمیم کو واپس لے کر آپ کے چیف جسٹس کی بننے کی جو راہ ہموار کی تھی وہ غیر آئینی تھی اور انھیں یہ ترمیم کرنے کا قطعا کوئی اختیار نہیں تھا۔ بروہی کا جواب سن کر شیخ انوارالحق ٹھس ہوگئے تھے۔ بروہی کی دھمکی کام دکھا گئی اورشیخ انوارالحق نے نہ صرف مارشل لا کو نظریہ ضرورت کے تحت قانون اورآئین کے مطابق ٹھہرایا بلکہ جنرل ضیا کو بطورمارشل لا ایڈمنسٹریٹر آئین میں ترمیم کرنے کا بھی اختیار دے دیا تھا۔
یاد رہے کہ اس بنچ میں جسٹس دراب پٹیل بھی تھے جنہوں نے جنرل ضیا کے مارشل لا کو قانونی جواز فراہم کیا تھا۔