فرانسیسی پارلیمان کے ایوان زیریں نے مسلم انتہا پسندی کے خلاف نئے ملکی قانون کی منظوری دے دی ہے۔ اس قانون کا مقصد مسلم مذہبی گروپوں کی طرف سے فرانس کے سیکولر ریاستی تشخص کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کا مقابلہ کرنا ہے۔
اس قانون کے تحت فرانسیسی ریاست کو ایسے نئے وسیع تر اختیارات مل جائیں گے، جن کی مدد سے مسلمانوں کی اظہار رائے کی آزادی بھی متاثر ہو سکتی ہے اور ان کی نمائندہ مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں کو بھی محدود کیا جا سکتا ہے۔
اس مسودہ قانون پر پیرس کی قومی اسمبلی میں رائے شماری کل منگل کی شام ہوئی، جس میں اراکین پارلیمان نے واضح اکثریت کے ساتھ اس قانون سازی کی حمایت کر دی۔ اس مسودے کی صدر ایمانوئل ماکروں کی مرکزیت پسند جماعت کے اراکین کی طرف سے تقریباً یک زبان ہو کر حمایت کی گئی۔ رائے شماری میں 347 اراکین نے اس قانونی بل کی حمایت کی، 151 نے مخالفت جبکہ 65 ارکان نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔
فرانسیسی پارلیمان کے قومی اسمبلی کہلانے والے ایران زیریں میں صدر ماکروں کی جماعت کو اکثریت حاصل ہے اور اب یہ مسودہ قانون منظوری کے لیے ایوان بالا یا سینیٹ میں بھیجا جائے گا، جہاں ماکروں کی سیاسی پارٹی کی اکثریت نہیں ہے۔
اس مسودہ قانون کے بارے میں ملکی وزیر داخلہ جیرالڈ دارماناں نے نشریاتی ادارے آر ٹی ایل کے ساتھ ایک انٹرویو میں کل منگل ہی کے روز کہا، ”یہ مجوزہ قانون سازی ایک بہت بڑی سیکولر پیش رفت ہے۔ مسودے کے متن کی زبان بہت سخت ہے، لیکن یہ فرانسیسی جمہوریہ کے لیے ناگزیر ہے‘‘۔
اس مجوزہ قانون پر فرانسیسی مسلمانوں اور ان کی نمائندہ تنظیموں کی طرف سے شدید تحفظات ظاہر کیے گئے تھے مگر بعد ازاں حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے والی فرانسیسی مسلمانوں کی مرکزی تنظیم کی طرف سے اس پر رضا مندی کا اظہار بھی کر دیا گیا تھا۔ کچھ مسلمان گروہوں کا موقف ہے کہ یہ قانون انہیں ایک مذہبی اور سماجی برادری کے طور پر بالکل الگ تھلگ کر دیتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اعتراض انتہائی بچگانہ ہے کیونکہ مسلمان یورپی معاشروں میں ہم آہنگ ہونے کی بجائے اپنے آپ کو مذہبی اور سماجی طور پر علیحدہ رکھنے پر مصر ہیں۔تجزیہ نگاروں کے مطابق مغربی دنیا کو بہت پہلے یہ قانون سازی کر لینی چاہیے تھی لیکن اب فرانس وہ پہلا ملک ہے جو سیاسی اسلام کی روک تھام کے لیے مناسب قانون سازی کررہا ہے۔
اس قانون کی 70 سے زائد مختلف شقیں ہیں۔ ان شقوں میں یہ بھی شامل ہے کہ ملکی حکام نا صرف مسلم مذہبی اسکولوں اور عبادت گاہوں کو بند بھی کر سکیں گے بلکہ انتہا پسندانہ نظریات کی تبلیغ کرنے والے مبلغین پر پابندی بھی لگائی جا سکے گی۔اس قانون کے تحت مسلم مذہبی گروپوں کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ خود کو بیرون ملک سے ملنے والی بڑی رقوم سے حکام کو آگاہ کریں اور ساتھ ہی اپنے رجسٹرڈ بینک اکاؤنٹس کی تصدیق بھی کروائیں۔
اس قانون میں یہ شق خاص طور پر اس لیے رکھی گئی ہے کہ پیرس حکومت اس حوالے سے پائی جانے والی تشویش کا سدباب کر سکے کہ ملک میں مسلمانوں کی مساجد کو ترکی، قطر اور سعودی عرب جیسے ممالک کی طرف سے رقوم مہیا کی جاتی ہیں۔
dw.com/urdu & Web desk
♠